اسلام آباد (این این آئی )سپریم کورٹ میں ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران جعلی لائسنسز کا معاملہ بھی زیر غور آیا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پوری دنیا میں جعلی لائسنسز کا اسکینڈل ہمارا مشہور ہوا، پاکستان کے بہت سے اور اسکینڈل پہلے سے معروف تھے۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا سول ایوی ایشن اتھارٹی کے کسی افسر کے خلاف کارروائی ہوئی، عملی کام کیا تو جواب دیں، تقریر نہیں سنیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تمام برائیاں ایئرپورٹ سے آتی ہیں، لگتا ہے یہ آج آپ پر انکشاف ہو رہا ہے جس کے جواب میں ڈی جی سول ایوی ایشن نے کہا کہ سول ایوی ایشن میں اصلاحات لا رہے ہیں، اس پر چیف جسٹس بولے کہ ہمیں کہیں بھی اصلاحات نظر نہیں آرہی ہیں۔چیف جسٹس نے ڈی جی سے مکالمہ کیا کہ آپ اس عہدے کے اہل نہیں ہیں، سی اے اے چلانا آپ کے بس کی بات نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ پائلٹس کو لائسنس دینے کے وقت سی اے اے کے تمام کمپیوٹر بند ہوگئے۔اس معاملے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پی آئی اے جعلی پائلٹس سے ملی ہوئی ہے، سول ایوی ایشن کے کمپیوٹر محفوظ نہیں، سول ایوی ایشن اتھارٹی میں ہونے والا کوئی کام محفوظ نہیں رہا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے لیے شرم کا مقام ہے کہ پائلٹس کے لائسنس جعلی نکلے، سی اے اے نے عوام کی زندگیاں داؤ پر لگا دی ہیں لیکن سی اے اے نے کسی افسر کے خلاف کارروائی نہیں کی، بھیانک جرم کرنے اور کرانے والے آرام سے تنخواہیں لے رہے ہیں۔اس موقع پر عدالت میں پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے سربراہ ارشد محمود ملک پیش ہوئے اور بتایا کہ جعلی ڈگری والے 750 ملازمین کو نکالا ہے جبکہ بھرتیوں میں ملوث افراد کو بھی نکالا گیا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ لوگوں نے پی آئی اے پر سفر کرنا چھوڑ دیا ہے، اس پر ارشد ملک بولے کہ پی آئی اے میں 141 جعلی لائسنس والے پائلٹس نکلے، جعلی ڈگریوں پر 15 پائلٹس کو برطرف کردیا گیا جس پر
چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا آپ کو پائلٹس برطرف کرنے کا اختیار ہے، اس کے جواب میں سی ای او پی آئی اے بولے میں صرف پائلٹس کو معطل کرسکتا ہوں، برطرف سول ایوی ایشن کرتا ہے، بدقسمتی سے قانون نے میرے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں۔ان کی بات پر جسٹس اعجاز الاحسن نے پائلٹس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پی آئی اے کو 450 پائلٹس کی ضرورت ہی کیوں ہے۔اس پر ارشد ملک نے کہا کہ
پی آئی اے کا 50 فیصد عملہ نکال رہے ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ مسئلے کا حل نہیں کہ 500 ملازم نکال کر اتنے ہی بھرتی کر لیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایک وقت تھا ہالی وڈ اداکار پی آئی اے میں سفر کرنا اعزاز سمجھتے تھے، آج حالت دیکھیں پی آئی اے کی کہ کہاں کھڑی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم پی آئی اے میں بھرتیوں پر پابندی عائد کریں گے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ پی آئی اے کا
کوئی اثاثہ بھی فروخت نہیں کر سکیں گے، انہی کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ روزویلٹ ہوٹل سمیت پی آئی اے کا کوئی اثاثہ عدالت کی اجازت کے بغیر فروخت نہیں ہوسکتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ گلشن جناح میں پی آئی اے پلاٹ پر آج بھی شادی ہال بنا ہوا ہے، یہ شادی ہال نہ گرانے پر توہین عدالت کی کارروائی کریں گے۔سماعت کے دوران جعلی پائلٹس کے معاملے پر
ایم ڈی پی آئی اے نے بتایا کہ سندھ ہائی کورٹ نے 5 جعلی پائلٹس کو حکم امتناع پر بحال کیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہائی کورٹ کا حکم امتناع چیلنج کیوں نہیں کیا؟اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ مروجہ طریقہ کار کے مطابق کارروائی تیز کریں۔اسی دوران ہی پالپا کے وکیل مخدوم علی خان جب عدالت میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا آپ جعلی پائلٹس کی وکالت کر رہے ہیں؟
جس پر انہیں جواب دیا گیا کہ کسی جعلی پائلٹ سے کوئی ہمدردی نہیں۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پائلٹس کا فیصلے متعلقہ ادارے کریں گے، ساتھ ہی انہوں نے پالپا کی فریق بننے کی درخواست خارج کر دی۔بعد ازاں عدالت نے جعلی لائسنس رکھنے والے پائلٹس کے خلاف کارروائی فوری مکمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے جعلی لائسنس جاری کرنے والے افسران کے خلاف فوجداری مقدمات درج کرانے کا حکم بھی دے دیا۔عدالت نے سول ایوی ایشن اور پی آئی اے کی رپورٹس پر عدم اطمینان کرتے ہوئے 2 ہفتے میں کارروائی پر مبنی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔