اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ آف پاکستان نے پائلٹس کو جعلی لائسنس جاری کرنے کے معاملے پر افسران کیخلاف فوجداری مقدمات درج کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے جعلی لائسنس ہولڈر پائلٹس کیخلاف کارروائی فوری مکمل کرنے کی ہدایت کر دی۔سپریم کورٹ نے سول ایوی ایشن اور پی آئی اے کی رپورٹس پر عدم اطمینان کا اظہار کر دیا۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ
سول ایوی ایشن کے کمپیوٹر محفوظ نہیں، بھیانک جرم کرنے اور کرانے والے آرام سے تنخواہیں لے رہے ہیں۔ ڈی جی سول ایوی ایشن نے کہا سول ایوی ایشن میں اصلاحات لا رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا سول ایوی ایشن چلانا آپ کے بس کی بات نہیں۔چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا ایک وقت تھا ہالی ووڈ اداکار پی آئی اے میں سفر کرنا اعزاز سمجھتے تھے، آج حالت دیکھیں پی آئی اے کہاں کھڑا ہے، پی آئی اے میں بھرتیوں پر پابندی عائد کریں گے۔ عدالت نے 2 ہفتے میں کارروائی پر مبنی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے ڈی جی سول ایوی ایشن سے مکالمے میں کہا کہ یہ آپ کے لیے شرم کا مقام ہے۔ ہم بدنامی کی کس نہج تک جائیں گے، مزید بدنامی کی گنجائش نہیں۔ڈی جی سول ایوی ایشن سے مکالمے میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ اس عہدے کے اہل نہیں،آپ استعفیٰ دے رہے ہیں یا ہم کارروائی کریں؟ آپ نے ایک بھی شخص کے خلاف اب تک کارروائی نہیں کی۔ڈی جی سول ایوی ایشن نے عدالت کو بتایا کہ ذمہ داروں کو معطل کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ معطل ہونے والے بھی تنخواہیں تو لے رہے ہیں، شرم کا مقام ہے۔ ہمیں کہیں بھی اصلاحات نظر نہیں آرہی ہیں، عملی کام کیا تو جواب دیں تقریر نہیں سنیں گے۔چیف جسٹس گلزاراحمد نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو رات کو نیند کیسے آجاتی ہے، آپ کو تو کام کام اور صرف کام کرکے نتائج دینے چایئے۔جسٹس اعجازلاحسن نے ریماکس دیئے کہ سیاسی مداخلت ہے پائلٹ اتنے بااثر ہیں کہ ایکشن نہیں ہو رہا۔ایم ڈی پی آئی اے ارشد محمود ملک نے عدالت کو بتایا کہ جعلی ڈگری والے 750 ملازمین کو نکالا ہے، بھرتیوں میں ملوث افراد کو بھی نکالا گیا ہے، پی آئی اے میں 141 جعلی لائسنس والے پائلٹس نکلے جب کہ جعلی ڈگریوں والے 15 پائلٹس کو برطرف کیا گیا۔