اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ نے شوگر کمیشن رپورٹ پر عملدرآمد کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے مقدمہ تین رکنی بنچ کے سامنے مقرر کرنے کی ہدایت کی ہے جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے کہا ہے کہ شوگر مل ایسوسی ایشن کمیشن کی رپورٹ سے جان نہیں چھڑوا سکتی۔
کمیشن رپورٹ غیر قانونی قرار دیں تو پھر بھی ختم نہیں ہوگی،ریگولیٹری اداروں کو کام سے نہیں روکا جاسکتا،کمیشن رپورٹ کالعدم ہونے سے بھی شوگر ملز کو کچھ نہیں ملنا۔ جمعرات کو سپریم کورٹ میں شوگر کمیشن رپورٹ پر کارروائی روکنے کیخلاف حکومتی اپیل پر سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کی ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ اٹارنی جنرل صاحب اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی مقدمے میں فیصلہ دیا ہے،کیا سندھ ہائیکورٹ کے علم میں یہ بات نہیں لائی گئی۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ شوگر ملز کی درخواست میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کا ذکر ہے،سندھ ہائیکورٹ کے عبوری حکم میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کا ذکر نہیں ہے،کمیشن رپورٹ میں شوگر ملز پر بہت سے الزامات سامنے آئے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کیا کمیشن کو شوگر ملز کو موقف کا موقع نہیں دینا چاہئے تھا۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ فیکٹ فائنڈنگ کمیشن کے سامنے موقف دینے کی ضرورت نہیں تھی،تاحال کمیشن کی کاروائی کو کالعدم قرار نہیں دیا گیا،تمام ایگزیکٹو اتھارٹیز کو فعال کر دیا گیا ہے،کمیشن کی رپورٹ آنکھیں کھولنے کے مترادف ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ کیا کمیشن کی رپورٹ پر شوگر ملز کیخلاف کوئی ایکشن لیا گیا۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ کچھ شگر مل مالکان کے پی اور کچھ بلوچستان ھائی کورٹ چلے گئے ،کچھ شوگر مل مالکان نہیں چاھتے کہ رپورٹ پر اتھارٹیز کارروائی کریں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ یہ محض کمیشن رپورٹ ہے، اس پر حکم امتناع کیوں لینا چاہتے ہیں؟۔ دور ان سماعت شوگر مل مالکان کے وکیل مخدوم علی خان عدالت میں پیش ہوئے اور کہاکہ ایگزیکٹو احکامات کو مالکان نے مختلف ہائی کورٹس میں چیلنج کیا،ہائی کورٹس سے مالکان کا رجوع کرنا معمول سے ہٹ کر نہیں ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ سندھ ہائی کورٹ کے پا س وہی مل مالکان گئے جو اسلام آباد ہائی کورٹ گئے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ ایک ہی ایسو سی ایشن دو مختلف ھائی کورٹس سے کیسے رجوع کرسکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ شوگر کمیشن کی رپورٹ پر مل مالکان کی تشویش کیا ہے۔ مخدوم علی خان نے کہاکہ شوگر مل ایسوسی ایشن نے ذاتی حیثیت سے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا، کمیشن کی رپورٹ میں محض سفارشات دی گئی ہیں۔
مخدوم علی خان نے کہاکہ کسی رپورٹ میں متاثر کن فائنڈنگ آئے تو دعوی دائر کیا جاسکتا ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ بظاہر کمیشن نے فیکٹ فائنڈنگ کی، کمیشن نے ڈیل اور بہت سی چیزوں کی نشاندھی کی، کمیشن کی رپورٹ متعلقہ اداروں کو کاروائی کے لئے بھیجی گئی ہے، ریاستی ادارے اگر شوکاز نوٹس جاری کرتے ہیں اپنا موقف وہاں پیش کریں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ابھی کسی شوگر مل کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ رپورٹ کے مطابق شوگر مل والوں کو نہیں سنا گیا،چینی کی قیمتیں بڑھنے پر پورے ملک میں شور مچا،کابینہ نے رپورٹ متعلقہ اداروں کو بھجوا دی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ آپ چاہتے ہیں کہ رپورٹ کو کالعدم قرر دیا جائے،متعلقہ ادارے پھر سے صفر سے سے کام شروع کریں۔ انہوں نے کہاکہ اس طرح تو معاملے پر دس سال لگ جائیں گے۔ مخدوم علی خان نے کہاکہ عدالت نے دیکھناہے کہ کیا کمیشن قانون کے مطابق بنایا گیا، دیکھنا ھوگا کہ کیا کمیشن غیر جانبدار تھا، دیکھنا ہوگا کہ کیا کمیشن نے شوگر ملز مالکان کا موقف سنا، اگر ان چیزوں کا خیال نہیں رکھا جاتا تو عدالتیں مداخلت کرسکتی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کمیشن کی رپورٹ شوگر مل مالکان کو متاثر کیسے کر سکتی ہے؟۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ اسلام اباد ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ کمیشن کی تشکیل قانون کے مطابق تھی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ حکومت کئی مواقع پر کمیشن بنا چکی لیکن رپورٹس سامنے نہیں آئیں، شوگر کمیشن رپورٹ سے شوگر مل والوں کے حقوق کیسے متاثر ہوئے؟۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے بعد شوگر مل مالکان نے سندھ ھائی کورٹ سے رجوع کیا، شوگر ملز مالکان کے حقوق کومکمل تحفظ حاصل ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ شوگر کمیشن کی رپورٹ میں سیاسی اتحادیوں کی نشاندھی بھی کی گئی ہے ۔
تسلیم کرتا ہوں کہ کسی کا میڈیا ٹرائل نہیں ہونا چاہیے۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ حکومت کو کہہ دیا کہ کسی ادارے کو معاملیپر ہدایات نہ دیں، حکومت کو کہہ دیا ہے کہ رپورٹ پر اداروں کو آزادانہ کام کرنے دیا جائے ،وفاقی کابینہ نے میری سفارش پر اداروں کو دی گئی ہدایات واپس لے لیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ یہ صوررتحال حکومت نے خود پیدا کی ہے،حکومت تحقیقات کرواکر مقدمات بنوا دیتی۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ رپورٹ پڑھ کر اندازہ ہوا کہ ملی بھگت کیسے ہوئی۔
گیارہ سال سے مصابقتی کمیشن کا حکم امتناع چل رہا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ شاید ایف بی آر سمیت کئی اداروں میں اہلیت کا فقدان ہے ،کمیشن میبران کے نام سب کے سامنے تھے ان کو کسی نے چیلنج نہیں کیا،کمیشن کی تشکیل غیر قانونی تھی تو وہ پہلے چیلنج کیوں نہیں کی ،کمیشن کے ارکان شوگر ملز کے خلاف کیوں جانبدارہونگے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ یہ بہت بڑا اشو ہے جس سے لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ مخدوم علی خان نے کہاکہ حکومت کہتی ہے کہ عوام پر ایک طبقے کا قبضہ ہوگیا ہے۔
حکومت اگر ریاستی اداروں کی مدد سے اس چیز کو نہیں روک سکتی پھر یہاں کیوں بیٹھے ہیں۔ مخدوم علی خان نے کہاکہ کمیشن کے قیام کا گزٹ نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا گیا،کسی بھی انکوائری کمیشن کا گزٹ نوٹیفیکیشن جاری ہونا لازمی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ چینی عوامی نوعیت کا ایشو ہے کیا شوگر کمیشن رپورٹ شائع ہو چکی ہے ۔ مخدوم علی خان نے کہاکہ وفاقی کابینہ نے شوگر کمیشن رپورٹ تسلیم کرلی ہے ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کیا شوگر کمیشن رپورٹ بطور ثبوت استعمال ہو سکتی ہے ؟ ۔ مخدوم علی خان نے کہاکہ کمیشن ارکان پر جرح کے بغیر رپورٹ بطور ثبوت استعمال نہیں ہوسکتی ۔
چیف جسٹس نے کہاکہ رپورٹ کی حیثیت صرف فیکٹ فائینڈنگ انکوائری کی ہے ،ہو سکتا ہے گزٹ نوٹیفیکیشن کسی دراز میں موجود ہو۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ گزٹ نوٹیفیکیشن اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ کوئی چیز خفیہ نہ رہے،شوگر کمیشن کی تشکیل کی تشہیر پورے میڈیا میں ہوئی۔ مخدوم علی خان نے کہاکہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل دائر کرچکے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ انٹرا کورٹ اپیل پر اسلام آباد ہائی کورٹ کو فیصلہ کرنے دیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ شوگر مل ایسوسی ایشن کمیشن کی رپورٹ سے جان نہیں چھڑوا سکتی۔
کمیشن رپورٹ غیر قانونی قرار دیں تو پھر بھی ختم نہیں ہوگی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ریگولیٹری اداروں کو کام سے نہیں روکا جاسکتا،کمیشن رپورٹ کالعدم ہونے سے بھی شوگر ملز کو کچھ نہیں ملنا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ ریگولیٹری ادارے کمیشن رپورٹ کا حوالہ دیئے بغیر بھی کارروائی کر سکتے ہیں،شوگر ملز کے پاس ریگولیٹری اداروں میں اپنا دفاع کرنے کا پورا حق موجود ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ سندھ ھائی کورٹ کا حکم معطل کیا جائے۔ مخدوم علی خان نے کہاکہ انکوائری رپورٹ سے شوگر ملز کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ آئین میں افراد کی ساکھ کا ذکر ہے لیکن کسی ایسو سی ایشن کا نہیں،عدالت نے شوگر ملز ایسوسی ایشن کے وکلاء سے تحریری دلائل طلب کر لیے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اب ممکن نہیں کہ کچھ ملزمان کے خلاف کاروائی سے روکا جائے اور باقی کے خلاف کارروائی جاری رہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ سندھ ہائی کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا۔
مخدوم علی خان نے کہاکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ابھی تک تفصیلی فیصلہ جاری نہیں کیا۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ کوئی ادارہ شوگر ملز کے خلاف حکم جاری نہیں کریگا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ادارے رپورٹ کاحوالہ دیئے بغیر کاروائی جاری رکھ سکتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ ادارے آزادانہ کاروائی کرنے والے ہوتے تو کمیشن کی نوبت ہی نہ آتی۔دلائل سننے کے بعد سپریم کورٹ نے شوگر کمیشن رپورٹ پر عملدرآمد کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انکوائری کمیشن رپورٹ پر عملدرآمد روکنے کا سندھ ہائیکورٹ کا حکم آئندہ سماعت تک برقرار رکھا۔عدالت عظمیٰ نے مقدمہ تین رکنی بنچ کے سامنے مقرر کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے وفاق کی اپیل پر مزید سماعت 14 جولائی تک ملتوی کر دی ۔