لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) تجزیہ کار سلیم بخاری نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اگلے چند ہفتوں میں قومی حکومت یا مائنس ون فار مولا سمیت کچھ ہونے جارہا ہے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس اسکے سوا کوئی چارہ نہیں۔ عمران خان ا ورانکی حکومت کوکئی چیلنجوں کا سامنا ہے ۔نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں پانچ پاور ہائوسز ہیں جن کی وجہ سے ایک فیصد بھی کام نہیں ہوا۔
عمران خان کو اٹھارہویں ترمیم میں تبدیلی کا ٹاسک دیا گیا تھا کیونکہ سارے مالی وسائل صوبوں کے پاس چلے گئے ہیں۔ سپورٹ کرنیوالے زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے فیصلے بدلتے ہیں، عمران خان بیٹھ کر سوچیں کیونکہ اس میں ملک میں متبادل لاتے ہوئے دیر نہیں لگتی، نوازشریف کیساتھ جو ہوا سب کے سامنے ہے ۔تجزیہ کار وسیم بادامی نے کہا کہ بجٹ کے منظور ہونے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا جبکہ مستقبل قریب میں مجھے سیاسی منظر نامہ تبدیل ہوتا نظر نہیں آرہا ہے ، یہی حالات چلتے رہیں گے کیونکہ خاص سپورٹ عمران خان کیساتھ ہے ۔ تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا ہے کہ اگر اس موقع پر پی ٹی آئی کی حکومت ڈی ریل کی گئی تو اسکا 100 فیصد فائدہ عمران خان کوہی ہوگا۔ تاہم مجھے ق لیگ وزیراعظم کو کوئی بڑا چیلنج دیتی نظر آرہی ہے بلکہ وہ موجودہ صورتحال کو انجوائے کررہی ہے ، ایسا لگتا ہے کہ پنجاب میں جیسے پرویز الٰہی وزیراعلیٰ ہوں اورعثمان بزدار انکی پارٹی کے حصہ ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان کا سب سے بڑا چیلنج وہ خود ہیں ،انہیں اپنی سیاست اورطرز سیاست پر نظرثانی کرنی چاہئے ۔چودھری برادران کے ڈنر کی خبرریلیز کرائی گئی، اگر عمران خان پرویز الٰہی کو فون کرتے تو وہ آسکتے تھے ۔ عمران خان اتحادیوں کے مطالبات کو سنجیدگی سے لیں قومی معاملات پر اپوزیشن سے بات کریں ۔