اسلام آباد(آن لائن)سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف صدارتی ریفرنس حکومتی بدنیتی پر مبنی تھا، آج کے فیصلے کے مطابق جائیدادیں بچوں اور اہلیہ کی ہیں مگر حکومت نے ایک سینئر جج کو اپنا ہدف بنایا اور ان کو ریفرنس میں نتھی کیا گیا، مجھے یقین ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل حکومتی بدنیتی کا بھانڈا پھوڑے گی، اگر حکومتی بدنیتی ثابت ہوتی ہے تو سپریم کورٹ کو
اس بدنیتی پرازخود نوٹس لینا چاہیے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے سینئر جج کے خلاف ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے اور ہمارا پہلے دن سے یہی موقف رہا ہے، حکومت کے پہلے ہی خراب معاملات چل رہے تھے، اپوزیشن کیخلاف نام نہاد احتساب کے نام پر کارروائیاں جاری تھیں تو ایسے میں ایک سینئر جج کیخلاف ریفرنس دائر کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ آخر حکومت کی کونسی مجبوری تھی۔انہوں نے کہاکہ صدر مملکت نے ریفرنس کے حوالے سے کہا تھا انہوں نے یہ پڑھا ہی نہیں صرف دستخط کیے تھے، اس ریفرنس کے حوالے سے حکومت کے بے شمار متضاد بیانات اور موقف سامنے آتے رہے ہیں۔ریفرنس کا مقصد صرف اور صرف یہ تھا کہ عدلیہ کو حکومت کے تابع کیا جائے مگر آج عدلیہ نے ریفرنس کو کالعدم قرار دے کر حکومت کے تمام خواب چکنا چور کردیئے ہیں اور تحریری و تفصیلی فیصلے میں مزید حکومتی بدنیتی سامنے آجائے گی۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ میں حکومتی بدنیتی اس وجہ سے کہا رہا ہوں کہ اس ریفرنس پر وزیراعظم، وفاقی وزراء اور کابینہ کے لوگوں نے بند کمروں میں ملاقاتیں کیں اور مشاورتیں کی گئیں جبکہ صدر مملکت نے بغیر پڑھے ہی اس ریفرنس کو آگے بھیج دیا۔ان تمام باتوں سے حکومت کی بدنیتی صاف ظاہر نظر آتی ہے۔انہوں نے کہا کہ جس طرح عدلیہ نے اس ریفرنس کو کالعدم قرار دیا ہے مجھے پورا یقین ہے کہ
سپریم جوڈیشل کونسل اس کی تحقیقات مکمل ہونے کے بعد حکومتی بدنیتی کا بھانڈا بھی پھوڑے گی۔میرے خیال میں اگر اصل ایشو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بچوں اور اہلیہ کے نام پر جائیدادوں کا تھا تو ان کیخلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے تھا مگر بچوں اور اہلیہ کیساتھ جسٹس صاحب کو ٹارگٹ کیا گیا اور ان کو بدنام کرنے کیلئے یہ معاملہ رچایا گیا جو حکومتی بدنیتی کا ثبوت ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ احتساب
صرف اورصرف سیاستدانوں کا ہوتا ہے اور جو حکومت کیخلاف بولے اس پر نیب کاکالا قانون لاگو کیا جائے گا، میں یہ نہیں کہتا کہ احتساب نہ ہو مگر پہلے نیب کا قانون بنانے کیلئے پارلیمنٹ میں قانون سازی ہونی چاہیے اور جب قانون بن جائے تو پھر سیاستدانوں، ججوں، فوج سمیت سب کا احتساب کیا جائے۔انہوں نے ایک اور سوال پر کہا کہ جب انکم ٹیکس قوانین ہیں تو پھر ان کے تحت جائیدادوں کی تحقیقات ہونی چاہئیں کہ کس نے کتنا ٹیکس دیا ہے یا نہیں دیا۔