اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ نے 13 ماہ سے جاری جسٹس فائز عیسی کیس کا فیصلہ سنا دیا ہے، جس میں صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ریفرنس کو بدنیتی پر مبنی بھی قرار دیا ہے۔ معروف قانون دان و سیاستدان اعتزاز احسن نے ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ سپریم کورٹ کو وضاحت کرنا ہو گی کہ ریفرنس کیسے بدنیتی پر مبنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ
ریفرنس دائر کرنا کس کا آئیڈیا تھا،اعتزاز احسن نے کہا کہ سپریم کورٹ کو جواب دینا ہو گا اس نے کس بنیاد پر ریفرنس کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا ہے۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کئے گئے شو کاز نوٹس بھی واپس لے لئے جبکہ عدالت عظمیٰ کے سات ججز نے معاملے ایف بی آر کو بھیجنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایف بی آر حکام فیصلہ کرکے رجسٹرار سپریم کورٹ کو آگاہ کریں، چیئرمین ایف بی آر خود رپورٹ پر دستخط کرکے رجسٹرار کو جمع کرائیں گے،اگر قانون کے مطابق کارروائی بنتی ہو تو جوڈیشل کونسل کارروائی کی مجاز ہوگی۔ جمعہ کو عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کی درخواست پر سماعت کی جسٹس عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک حکومتی وکیل فروغ نسیم کے دلائل پر جواب الجواب دئیے۔کیس کی سماعت شروع ہوئی تو سب سے پہلے وفاقی حکومت کے وکیل فروغ نسیم نے کچھ دستاویزات جبکہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ٹیکس ریکارڈ کی دستاویز سربمہر لفافے میں عدالت میں جمع کروائیں۔مزید یہ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کی جانب سے بھی زرعی زمین اور پاسپورٹ کی نقول عدالت میں جمع کروائی گئیں۔اس پر سربراہ بینچ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ
ہم ابھی اس لفافے کا جائزہ نہیں لیتے اور نہ ہی اس پر کوئی آرڈر پاس کریں گے۔انہوں نے کہا کہ معزز جج (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) کی اہلیہ تمام دستاویز ریکارڈ پر لاچکی ہیں، آپ اس کی تصدیق کروائیں، ہم ابھی درخواست گزار کے وکیل منیر اے ملک کو سنتے ہیں۔ عدالت نے منیر اے ملک کو ہدایت کی کہ وہ اپنے دلائل کو مختصر رکھیں، جس پر وکیل جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ ساڑھے 10 بجے تک اپنے دلائل مکمل کردوں گا۔جس پر جسٹس عمر عطا بندیال بولے کے عدالت پہلے بھی آپ کو دلائل کیلئے21 دن دے چکی ہے۔منیر اے ملک نے اپنے جواب الجواب میں کہا کہ افتخار چوہدری کیس میں سپریم جوڈیشل کونسل پر بدنیتی کے الزامات تھے،سپریم جوڈیشل کونسل نے بدنیتی پر کوئی فیصلہ نہیں دیا تھا، توقع ہے کہ مجھے جوڈیشل کونسل کی بدنیتی پر بات نہیں کرنا پڑے گی۔