کوئٹہ ( آن لائن )سردار اختر مینگل پہلے کب کب حکومت سے ناراض ہوئے ۔بلوچستان کی سیاسی جماعت بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل نے گزشتہ برس بھی بجٹ سے قبل حکومت سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا اور حکومتی پالیسیوں سے نالاں دکھائی دیے اور اس وقت بھی انھوں نے حکومت پر چھ نکاتی مفاہمتی معاہدے پر عملدرآمد نہ کرنے کا الزام لگایا تھا۔ تاہم بعدازاں وزیر اعظم کے حکم پر ایک مرتبہ
وزیر دفاع پرویز خٹک اور دوسری مرتبہ جہانگیر ترین کی قیادت میں حکومتی وفد نے بی این پی کے تحفظات دور کرنے کے لیے ملاقاتیں کی تھیں۔رواں برس جنوری میں بھی وزیر قانون فروغ نسیم کی قیادت میں ایک حکومتی وفد کی سردار اختر مینگل سے ملاقات ہوئی تھی جس کے بات انھوں نے میڈیا پر کہا تھا کہ حکومت اور ان کے درمیان مفاہمتی معاہدے خصوصا لاپتہ افراد کے حوالے سے کافی پیش رفت ہوئی ہے۔رواں سال فروری میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سردار اختر مینگل نے کہا تھا کہ اس وقت تک 500 افراد گھروں کو واپس آچکے ہیں لیکن انھوں نے جو فہرست پیش کی تھی اس میں سے صرف اکا دکا ہی واپس آئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘اس ملک کی یہ ہی روایت ہے کہ جب کوئی کام یاد آتا ہے تو پھر ضرورت پڑتی ہے، رواں مالی سال کے بجٹ سیشن کے وقت 450 افراد واپس آئے اس کے بعد 52 افراد رہا ہوئے ہیں۔’اس سے قبل بھی اختر مینگل کی جانب نے حمایت واپس لینے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن بعد میں وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کے بعد یہ فیصلہ موخر کردیا گیا۔ سردار اختر مینگل نے گزشتہ برس بھی بجٹ سے قبل حکومت سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا اور حکومتی پالیسیوں سے نالاں دکھائی دیے اور اس وقت بھی انھوں نے حکومت پر چھ نکاتی مفاہمتی معاہدے پر عملدرآمد نہ کرنے کا الزام لگایا تھا۔ تاہم بعدازاں وزیر اعظم کے حکم پر ایک مرتبہ وزیر دفاع پرویز خٹک اور دوسری مرتبہ جہانگیر ترین کی قیادت میں حکومتی وفد نے بی این پی کے تحفظات دور کرنے کے لیے ملاقاتیں کی تھیں