اسلام آباد (این این آئی) پاکستان مسلم لیگ (ن)کے رہنما رانا ثناء اللہ نے حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بتایا جائے وزیر اعظم ہائوس کی بیچی گئیں بھیسوں کی رقم سے کتنا قرض اترا ،حکومت کا کام صرف انتقام ہے،شہزاد اکبر سرکاری اخراجات کرکے بیرون ملک جاتے رہے ، آج تک ایک ڈالر واپس نہیں لاسکے ، عوام سے روز جھوٹ بولتے ہیں ،کورونا کے انچارج ڈاکٹر ظفر مرزا کیخلاف نیب انکوائری شروع ہوگئی ہے،
ڈاکٹر ظفر مرزا سے استعفیٰ کیوں نہیں لیا گیا؟ پہلے کہتے تھے کہ کشتی ڈوب جائے ، ریلوے حادثہ ہوجائے تو وزئراعظم یا وزیر کو استعفیٰ دے دینا چاہیے ؟ کیا یہ باتیں صرف الیکشن تک تھیں ،آپ کہتے تھے کہ ہاتھ پھیلانے سے قوم کا سر شرم سے جھک جاتاہے ؟ اب آپ کیا کہتے ہیں جب ہر جگہ مانگتے پھرتے ہیں جبکہ وزیر مملکت زرتاج گل نے جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ جب بھی احتساب تیز ہوتا ہے یہ شور شروع کردیتے ہیں ،ایک ٹوئٹر ی ہوتی تھی وہ آج کل خاموش ہیں ان کے دو ٹوئٹر چل رہے ہیں ،عجیب لوگ ہیں جنہوں نے ابھی سے اپنے باپ کے قاتل ڈھونڈ لیے ہیں ،،زبان ہم نہیں آپ بدلتے رہے ،چھ ماہ میں بجلی نہ دے سکا تو نام بدل دینا ،اب ہم ڈھونڈ رہے ہیں کہ آپ کا نام کیا رکھیں؟روز مینار پاکستان پر پنکھا لے کر بیٹھ جاتے تھے ۔ بدھ کو قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر اسد قیصر کی صدارت میں ہوا جس میں اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہاکہ بحث کیلئے ہر جماعت کا وقت مقرر ہے،کسی جماعت کو اضافی وقت نہیں دوں گا۔انہوںنے کہاکہ جماعتوں کے چیف وہپ بحث کیلئے ارکان کے نام دیں،ارکان وقت نہ ملنے پر اسپیکر سے گلہ کرتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن)کے رکن اسمبلی رانا ثناء اللہ نے کہاکہ آپ نے بجٹ بحث کے لیے 40 گھنٹے مقرر کیے ہیں، ہر پارٹی جو اس کے لیے وقت مقرر ہے وہ لے گی جو پہلے ہی طے ہوگیا ہے۔ ملک عامر ڈوگر نے کہاکہ ہمارا بجٹ بحث پر وقت 18 گھنٹے 20 منٹ ہیں، ہمارا ہر رکن بجٹ بحث
پر 7 سے 8 منٹ بولے گا۔بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے مولانا عبدالا اکبر چترالی نے کہاکہ ہمارا بجٹ سودی کاروبار پر منحصر ہے،جب تک سود سے چھٹکارا حاصل نہیں کریں گے معیشت ترقی نہیں کریگی۔انہوںنے کہاکہ نوجوانوں کو چار فیصد سود کے بجائے بلا سود قرضے دئیے جائیں۔انہوںنے کہاکہ سرکاری ملازمین کے ساتھ ظلم و زیادتی کی گئی،سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کم از کم دس فید اضافہ کیا جائے۔انہوںنے کہاکہ پیٹرول پر
عوام دربدر پھر رہے ہیں اس حوالے سے حکومت کی رٹ کمزور ہے،مسجدوں کو بند کروانے میں حکومت نے اپنی رٹ قائم اور ہم علماء نے اسے تسلیم کیا،مگر پیٹرول کی دستیابی کے لیے حکومتی رٹ کہاں ہے۔ انہوںنے کہاکہ چترال کے لیے ترقیاتی منصوبوں پر فنڈز مختص کرنے پر حکومت کا مشکور ہوں۔ تحریک انصاف کے رکن اسمبلی فضل محمد خان نے کہاکہ وزیر اعظم کی سندھ پر خصوصی توجہ ہے ،سندھ والے بھی عمران خان سے
محبت کرتے ہیں ،خواجہ آصف کی ٹوئٹ پر مبنی سکرین شاٹ موصول ہوا ،خواجہ آصف نے ٹوئٹ میں قائد اعظم سے متعلق سوالات اٹھائے ،اگر وہ سچ ہے تو اس پر خواجہ آصف کو معافی مانگنی چاہئے ،میرے بس میں ہوتا تو خواجہ آصف کو مقدس ایوان سے باہر نکال دیتا۔ اظہار خیال کرتے ہوئے رانا ثنااللہ نے کہاکہ ہر ایوان میں پیش کردہ بجٹ ڈاکومنٹ نامکمل ہے ، کل بھی سید نوید قمر نے اس کی نشاندہی کی تھی لیکن کوئی پالیسی ، ویژن یا منصوبہ
ہے کہ عام آدمی کو کوئی ریلیف دیا جاسکے ؟ اس ملک کی اکانومی کا جو پچھلے سترہ ماہ میںستاناس کیاگیا پھر کرونا نے سوا ستیاناس کردیا ،کس نے کہاتھا کہ سو دن کے اندر اربوں کی کرپشن ختم کردیں گے ،کس نے کہاتھا کہ تین دن کے اندر عمران خان وزئراعظم بن کر دو سو اارب ڈالر بیرون ملک سے واپس لائیگا ،کس نے کہاتھا کہ رشوت ، مہنگائی کا خاتمہ کریں گے ،کرونا سے پہلے آٹا اور چینی بحران آیا اس کا کیا جواب ہے ؟ اس وقت
حکومت کی کیا پالیسی تھی ،سو سے ڈیڑھ سو ارب عوام کی جیب سے لوٹنے کے بعد اس چینی مافیا کے خلاف کیا ایکشن ہوا،اس چینی مافیا کا سب سے بڑا فائدہ اٹھانے والے کو شان و شوکت سے باہر بھجوا دیاگیا وہ باہر بیٹھا ہے ،کمیشن نے فورنزک آڈٹ کیا لیکن اس کو اتنا بڑھا دیا کہ شیطان کی آنت کی طرح اس کا کوئی سرا ہی ہاتھ نہیں آرہا کمیشن رپورٹ کے کرداروں میں سے کس کے خلاف اب تک کوئی ایکشن ہوا ؟ چینی آج بھی 85 روپے بک رہی
ہے ،مسلم لیگ ن کی حکومت آئی تو چینی کی قیمت 55 روپے تھی ، چینی کی قیمت نہیں بڑھنے دیا ،آج کوئی جواب نہیں کہ چینی کی قمیت کم اب تک کیوں نہیں ہوا۔انہوںنے کہاکہ چینی مافیا کیخلاف ابھی تک کیا ایکشن ہوا، بتایا جائے؟کیا یہ بے قاعدگیاں پہلے نہیں تھیں لیکن مسلم لیگ ن کے پانچ سال چینی کی قیمت 53 روپے رہی،سوال یہ ہے کہ چینی کی قیمت کم کون کریگا جس کا عام آدمی کو فائدہ پہنچے گا،مہنگائی کم کرکے لوگوں کو نوکریاں
کون دے گا،پچاس لاکھ گھر بنانے بارے بتایا جائے بجٹ میں کیا رکھا گیا،پورے ملک میں ایک مرلہ جگہ بھی پچاس لاکھ گھروں کیلئے نہیں لی گئی،نالائقی ، تکبر اور انتقام کی وجہ سے حکومت ناکام ہورہی ہے،موجودہ حکومت کا ہاؤسنگ منصوبہ ناکامی کی کی تصویر ہے۔ رانا ثناء اللہ نے کہاکہ کیا اقدامات کیے گئے کہ ماسک کی قیمت میں دس سے پندرہ گنا اضافہ نہ ہو،کورونا مریضوں کیلئے 30 سے 40 ہزار کا انجکشن عوام نے تین سے چار لاکھ کا
خریدا،اگر صوبائی حکومت نے لاک ڈاؤن کرنا چاہا تو انکو روکا گیا،وفاق سے وزراء کو تیار کرکے کراچی بھیجا گیا کہ سندھ حکومت پر حملہ آور ہوں،آج وہ صورتحال بننے جارہی ہے جس کا ڈاکٹرز رو رو کا بتا رہے تھے کہ لاک ڈاؤن ختم نہ کریں،کیا یہ کنفیوژڈ پالیسی نہیں ہے،کورونا کے انچارج ڈاکٹر ظفر مرزا کیخلاف نیب انکوائری شروع ہوگئی ہے، ڈاکٹر ظفر مرزا سے استعفیٰ کیوں نہیں لیا گیا۔ پہلے کہتے تھے کہ کشتی ڈوب جائے ، ریلوے
حادثہ ہوجائے تو وزئراعظم یا وزیر کو استعفیٰ دے دینا چاہیے ؟ کیا یہ باتیں صرف الیکشن تک تھیں ،آپ کہتے تھے کہ ہاتھ پھیلانے سے قوم کا سر شرم سے جھک جاتاہے ؟ اب آپ کیا کہتے ہین جب ہر جگہ مانگتے پھرتے ہیں ۔انہوںنے کہاکہ یہ حکومت نہ صرف آئی ایم ایف کے پاس گئی بلکہ انکو اٹھا کر گھر لے آئی ہے،آج ہمارا بجٹ بھی آئی ایم ایف بنارہی ہے،کہاگیاکہ 50 لاکھ گھر بنائیں گے ؟ پانچ ہزار سے ہی شروع کردیتے ؟ ،نوکریاں دینا تو دور
کی بات جو برسر روزگار تھے انہیں بھی بے روزگار کردیاہے ،کوئی پوچھنے والا نہیں ،اب تک کرونا کیلئے جو اقدامات اٹھائے کیا وہ سب کے سب غلط ثابت نہیں ہوگئے ؟تمام انتظامات بھی ناکام ثابت نہیں ہوئے ؟ ماسک پہننے کی پابندی لگادی گئی لیکن کوئی انتظام کیاگیا کہ انہیں ماسک دستیاب ہوں ؟دراصل یہ اعلان کرکے دو روپے کی چیز پر منافع خوروں کو منافع کمانے کا موقع دیاگیا ،حکومت کہاں ہے ؟ اگر حکومت ماسک اور ادویات کی اصل
قیمت پر فراہمی یقینی نہیں بنا سکتی ،لاک ڈاؤن پر بھی کنفیوژ ہیں ،یہ سب کنفیوژڈ پالیسی نہیں ہے تو اور کیاہے ؟آج وہی حالات ہیں جن پر ڈاکٹرز رو رو کر بتاتے رہے ،آج وہی اندازے وزیراعظم ، وزیر صحت اور دیگر حکام بتارئے ہیں کہ بارہ لاکھ لوگ متاثر ہوں گے ،بتائیں اس ساری صورت حال کا ذمہ دار حکومت نہیں تو اور کون ہے ؟ انہوںنے کہاکہ دراصل اسحاق ڈار نے ڈالر کو نہیں روکا ہوا تھا بلکہ انیل مسرت اور عمران چوھدری کو روکاہوا
تھا ،آپ نے الزام لگایا کہ ڈار صاحب نے جعلی طور پر ڈالر کر بڑھنے سے روکا ، آپ نے آزاد کرکے اچھا کیا لیکن اب تو 165 پر پہنچ گیاہے اور وہ رک ہی نہیں رہا ،پانچ سال میں دس ارب ڈالر قرض لینے پر شور مچا رہے تھے ، قرضوں کی تحقیقات پر کمیٹی بنائی تھی اس کی رپورٹ کہاں ہے ؟ دو سال میں تیرہ ارب ڈالر قرض کس کھاتے میں لیاہے ،پانچ ہزار ارب ڈالر قرض واپس کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں باقی سات ہزار ارب کدھر ہیں ؟ کیا آپ کھا گئے
ہیں ؟۔ انہوںنے کہاکہ موجودہ حکومت نے ڈیڑھ سال میں 13 ہزار ارب قرض لیا ہے،کہا گیا کہ ہم 8 ہزار ارب ٹیکس پہلے سال میں اکٹھا کرینگے،اب پوچھا جائے کہ کہاں ہے وہ ٹیکس تو رونے لگ جاتے ہیں،مسلم لیگ ن کے دور میں ٹیکس اکٹھا کرنے کی شرح زیادہ تھی،جب 1999 میں نواز شریف کی حکومت تھی تو نہ لوڈ شیڈنگ تھی اور نہ دہشتگردی،ملک میں بحران آمر جنرل مشرف کی وجہ سے آئے،اسی جنرل مشرف کے ریفرنڈم کی مہم عمران
خان کرتے رہے،ہم نے گزشتہ پانچ سالوں میں لوڈ شیڈنگ بھی ختم کی اور دہشتگردی بھی۔ انہوںنے کہاکہ سی پیک مکمل ہوجاتا تو ملکی معاشی حالات بدل جاتے اور روزگار میں اضافہ ہوتا ،آپ نے آکر سی پیک کے منصوبوں کو بیک برنر پر ڈال دیاہے ،آپ بتائیں دو سال میں کس منصوبے پر کام کیاہے ،نفرت پھیلانے اور نااہلی کے سوا آپ کا کوئی کام نہیں ،آپ نے ایک ہی رٹ لگا رکھی ہے کہ وسائل اکٹھے نہیں ہورہے ،جن کاموں کیلئے وسائل درکار نہیں
تھے اس پر کیا کام کیا ؟ وزئراعظم ہاؤس کو یونی ورسٹی بنانے کیلئے کیا وسائل درکار تھے ؟۔ رانا ثناء اللہ نے کہاکہ سی پیک منصوبہ کو کس نے روکا ،آج وسائل کئی گنا ہوتے،پہلے سی پیک کو دھرنے کے ذریعہ روکا گیا اور اب حکومت میں آکر پیچھے دھکیل دیا گیا،اس حکومت نے گزشتہ دو سالوں میں کس منصوبہ کو مکمل کیا،وسائل کا رونا رونے والے بتائیں وزیراعظم ہائوس میں یونیورسٹی بنانے کیلئے کتنے وسائل چاہئے تھے ،گورنر ہاؤس کی
دیواریں تو اب تک گرائی نہیں گئیں،وزیراعظم ہاؤس کی جو بھینسیں اور گاڑیاں بیچی گئیں ان سے کتنا قرض اترا،اس حکومت کا ایک ہی منصوبہ ہے جو انتقام پر مبنی ہے۔رانا ثنااللہ نے کہاکہ شہزاد اکبر 20 کے قریب پریس کانفرنسز میں شریف خاندان کیخلاف جھوٹے دعوے کرچکے ہیں،بتایا جائے شہزاد اکبر باہر سے ملک کو لوٹا ہوا کتنا پیسہ واپس لائے،اس حکومت کا کام صرف انتقام ہے،شہزاد اکبر سرکاری اخراجات کرکے بیرون ملک جاتے
رہے اور آج تک ایک ڈالر واپس نہیں لاسکے ، عوام سے روز جھوٹ بولتے ہیں ۔ وزیر مملکت زرتاج گل نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ جب بھی احتساب تیز ہوتا ہے یہ شور شروع کردیتے ہیں ،ایک ٹوئٹر ی ہوتی تھی وہ آج کل خاموش ہیں ،آج کل ان کے دو ٹوئٹر چل رہے ہیں ،عجیب لوگ ہیں جنہوں نے ابھی سے اپنے باپ کے قاتل ڈھونڈ لیے ہیں ،ان کا حال یہ ہے کہ ایک رکن نے ہمارے کراچی سے رکن کو مونڈھا مار کر گرادیا ،زبان ہم نہیں
آپ بدلتے رہے ،چھ ماہ میں بجلی نہ دے سکا تو نام بدل دینا ،اب ہم ڈھونڈ رہے ہیں کہ آپ کا نام کیا رکھیں؟روز مینار پاکستان پر پنکھا لے کر بیٹھ جاتے تھے بجلی آگئی تھی ۔ انہوںنے کہاکہ امریکہ جیسے ملک کی معیشت سے 86ارب ڈالر غائب ہوگیا ،برطانوی معیشت بیس فیصد سکڑ گئی ،عمران خان نے ثابت کیا نیا ٹیکس نہیں لگنے دیا ۔ انہوںنے کہاکہ احساس پروگرام میں ایک سو اسی ارب سے پانچ سو ارب روپے کردیا گیا ،مستحقین کی عزت نفس کا
خیال رکھا گیا ہے ،مستحقین کو کسی ایم این اے ایم پی اے کے ڈیرے کے چکر نہیں لگانا پڑے ۔ انہوںنے کہاکہ ڈیم کیلئے پہلی مرتبہ رقم رکھی گئی ہے ،بھارت جب ہمارے دریاؤں پر بند بندھ رہا تھا یہ ان کو ساڑھیاں بھجوا رہے تھے ،جنوبی پنجاب کیلئے بڑے بڑے منصوبے رکھے گئے ہیں ،ڈیرہ غازی خان صدر فاروق لغاری دوست محمد کھوسہ کا حلقہ رہا مگر عوام کے لئے کچھ نہیں کیا گیا ۔انہوںنے کہاکہ پاکستان بنا تو جنگلات 33فیصد تھا ،ان کے
دور 1995سے 2018تک چار فیصد تک جنگلات کی تباہی اڑا دی گئی۔زرتاج گل نے کہاکہ کے پی کے میں تین لاکھ ہیکٹر رقبے پر جنگلات لگا کر ریکارڈ قائم کیا ،اپوزیشن لیڈر اسمبلی اجلاس بلاتے ہیں مگر خود نہیں آتے ،وزیر اعظم عمران خان کی کوئی کچن کیبنٹ نہیں ،وزیر اعظم عمران خان ہر ایشو پر عوام میں موجود ہوتے ہیں ،سندھ میں لاڑکانہ ایڈز زدہ ہوگیا ،پچیس لاکھ لوگوں کو کتے کھا گئے،کراچی گٹر زدہ کردیا گیا۔ جمعیت علمائے
اسلام (ف) کے رہنما اسعد الرحمن نے کہاکہ بجٹ نہ پاکستانیو ںکا ہے نہ پاکستانیو ںنے بنایا ، انہوںنے کہاکہ خواجہ آصف نے بجٹ کی کمزوریوں کی نشاندہی کی ،حکومت اٹھائے گئے سوالات پر مطمئن کرتے مگر جوابات اپنی پارٹی کی تعریف کی جاتی ہے ،اس منفی جی ڈی پی میں بھی سر اٹھا کر بولتے ہیں ہمیں شرم آجاتی ہے ،یہ عمران خان ہی تھے جنہوں نے کہا شکر ہے مرکز میں حکومت نہیں ملی ورنہ جو حال پرویز خٹک نے صوبے کا کیا وہی
مرکز میں ہوتا ،ہمیں معلوم ہے کہ الیکشن سے قبل لوگوں کو کیسے کیسے ٹکٹوں پر الیکشن لڑنے سے روکا گیا ،ستر فیصد جیتنے والوں کو آپ کی پارٹی میں دھکیلا گیا ،روزانہ بارہ ارب روپے کرپشن روکی تو پھر تو آٹھ ہزار روپے جمع ہوچکے ہونے چاہئیں تھے ،الیکشن سے پہلے اور شادی سے پہلے ہونے والے وعدے کبھی پورے نہیں ہوتے ،پتہ نہیں کس نے مشورہ دیا کہ پانچ چھ گھنٹوں میں کاروبار کی اجازت دیتے ،چوبیس گھنٹے ایس او پی کے
تحت کاروبار کھلنا چاہئے تھا ،اب ہر وزیر کہہ رہا ہے کہ کرونا نے معیشت تباہ کردی ،پہلے کیا ٹھیک کی تھی ،آپ کو زبردستی قوم پر مسلط کردیا گیا ،معاشی ماہرین ایسے ایسے آپ پر تبصرے کرتے ہیں جو یہاں زبان پر لانا بھی مناسب نہیں ،ہمیں مودی اور ٹرمپ کی مثالیں دی جاتی ہیں ،بتائیں کس ملک کی جی ڈی پی منفی میں گئی ،ٹرمپ اور عمران خان میں کیا فرق ہے ۔انہوںنے کہاکہ قوم کرونا میں مبتلا ہے ،آپ نے اٹھارہویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ
کی بحث چھیڑ دی ،غیر قانونی این ایف سی ایوارڈ نوٹیفیکیشن واپس لیں۔ انہوںنے کہاکہ پوری اپوزیشن نوٹیفیکیشن واپس لینے کا مطالبہ کرتی ہے ،مرادسعید نے گزشتہ روز ایسے منصوبوں کا بھی اعلان کردیا جو مسلم لیگ ن کے دور میں شروع ہوچکے ہیں ،صرف یہ بتا ئیں آپ کی حکومت کس چیز میں ماہر ہیں ،لاہور میں چلتی میٹرو دیکھ کر لوگوں نے ن لیگ کو ووٹ نہیں دیا ،آپ کو بی آر ٹی کھنڈرات دیکھ کر بھی لوگوں نے پشاور میں ووٹ دیئے سوچیں
کیوں ؟،بتائیں ایم ایم روڈ کیلئے کیا رقم رکھی گئی؟جو بجٹ پیش کیا گیا وہ دوبارہ دوتین ماہ بعد آئیگا ،سٹیل ملز ملازمین سے وعدے کچھ اور کئے اور اب بیروزگار کردیا ،اسلام آباد کا ایمبیسی روڈ 2017سے زیر تعمیر ہے ،چوبیس ارب سی پیک کے ممبران کو دے دیئے گئے ،چند کاروباری افراد کے لئے تین سوارب آرڈیننس جاری کردیا ،غریبوں کے لئے ڈیڑھ سوارب رکھے گئے ،تمام مکتب سکول بند کردیئے ،اب تو اسلام آباد میں پیرا سیٹا مول
نہیں مل رہی ،پارلیمنٹ ڈسپنسری سے بھی ادویات نہیں مل رہیں ،میرا خیال ہے افغانستان کی جی ڈی پی بھی آپ سے اوپر ہے،میرے حلقے میں صرف ایک ہسپتال ہے ۔ انہوںنے کہاکہ سود اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ ہے ،دفاعی بجٹ میں دشمن سے لڑنے کے لئے کتنا بڑا حصہ رکھتے ہیں ،اللہ اور رسول کے خلاف جنگ کے لئے ہم بجٹ میں سود رکھے ہوئے ہیں ،اللہ اور رسول کے خلاف جنگ ہم کیسے جیت سکتے ہیں ،جس سود کو اللہ اور رسول نے جنگ قرار دیا ہے ہم اس سے باز نہیں آرہے۔انہوںنے کہاکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی کشمیر پر کمیٹی کو مسترد کرتے ہیں ،شاہ محمود قریشی کی طرف سے کشمیر کمیٹی بنائی گئی تو جے یو آئی اس میں شریک نہیں ہوگی ،جے یو آئی ایسی کمیٹی میں نہیں بیٹھے گی جس میں کشمیر بیچنے والے بیٹھے ہوں۔