اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)جاوید چودھری اپنے کالم ’’ نوچ نوچ کر ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔پوری دنیا میں فضائی حادثوں کی تحقیقات کے کمیشن اور ادارے ہیں لیکن ہم نے آج تک کوئی ایسا ادارہ نہیں بنایا‘ ہم ہر حادثے کے بعد عارضی کمیشن بناتے ہیں‘ یہ کمیشن سال ڈیڑھ سال موجیں کرتا ہے اور پھر ڈھیلی ڈھالی سی رپورٹ دے کر گھر بیٹھ جاتا ہے‘ کراچی کے موجودہ حادثے کے بعدبھی ائیر فورس کے چارافسروں کا کمیشن بنا دیا گیا‘
آپ بے حسی کی انتہا دیکھیے اس میں سول ایوی ایشن‘ پولیس اور سیکرٹ ایجنسی کا ایک بھی افسرشامل نہیں۔کمیشن کے کسی افسر نے آج تک مسافر طیارہ نہیں اڑایا اور یہ سول ایوی ایشن کے ایس او پیز سے بھی واقف نہیں ہیں چناں چہ ان کی رپورٹ کی کیا حیثیت ہو گی؟دوسرا حادثہ اگر کسی دہشت گردی یا سستی کا نتیجہ نکل آیا تو یہ کمیشن مجرموں کا تعین کیسے کرے گا‘ کیا اس کے پاس پولیس کے اختیارات ہیں‘ کیا یہ کسی مجرم کو گرفتار کر سکے گا؟ اگر نہیں تو کیا ہم حادثے کے تین چار ماہ بعد پولیس کو تحقیقات کا حکم دیں گے؟ اگر ہاں تو ان تحقیقات کی قانونی حیثیت کیا ہوگی؟ ۔کیا ہم میں مستقل کمیشن بنانے کی اہلیت بھی نہیں؟ آپ بے حسی ملاحظہ کیجیے لاہور سے ڈی این اے کی ٹیم کراچی بلا لی گئی‘یہ ٹیم بائی روڈ کراچی پہنچ گئی تو سندھ حکومت نے اسے نمونے نہیں لینے دیے‘ کیوں؟ کیوں کہ سندھ حکومت پنجاب کو ڈی این اے کا کریڈٹ نہیں دینا چاہتی تھی لہٰذا لواحقین حادثے کے 11دن بعد بھی لاشوں کے لیے خوار ہو رہے ہیں‘کیا ہم میں اتنی سی کوآرڈی نیشن کی اہلیت بھی نہیں؟ ہمیں چار دن تک بلیک باکس نہیں ملا تھا‘ جب ائیر بس کی ٹیم نے بلیک باکس کے بغیر واپس جانے سے انکار کر دیا تو ہمیں مجبوراً بلیک باکس تلاش کرنا پڑ گیا۔کیا ہم وقت پر بلیک باکس بھی تلاش نہیں کر سکتے؟ ائیر بس نے حادثے کے 72گھنٹے بعد کرونا اور لاک ڈاؤن کے باوجود اپنی 11رکنی ٹیم کراچی پہنچا دی لیکن ہمارے وزیراعظم اور وزراء کوآج تک کراچی جانے کی توفیق نہیں ہوئی‘ آپ سول ایوی ایشن اور ائیرپورٹ سیکورٹی فورس کی
تیاری بھی دیکھ لیجیے‘ طیارہ ان کے سامنے ڈول رہا تھا‘ اس کے اگلے پہیے نہیں کھل رہے لیکن کسی نے رن وے کو آگ سے بچانے کے لیے چھڑکاؤکیا اور نہ فائر بریگیڈ اور ایمرجنسی کا اعلان کیا‘ پورا سسٹم چپ چاپ طیارہ گرنے کا نظارہ کرتا رہا‘ کیا ہم میں یہ اہلیت بھی نہیں؟۔ہم نے طیارہ گرنے کے بعد بھی کیا کیا؟ لاشیں ایدھی اور چھیپا فاؤنڈیشن نے ہسپتالوں تک پہنچائیں‘ لواحقین کو پانی اور افطار عام لوگوں نے
کرایا اور انتقال کرنے والوں کا ڈیٹا سوشل میڈیا کے غیر سرکاری پیجز نے وائرل کیا‘ جہاز آبادی پر گرا ہوا تھا لیکن سی ای او ارشد ملک پریس کانفرنس کے لیے ٹائی پسند فرما رہے تھے اور شرٹ استری کرا رہے تھے‘ آپ ظفر مسعود کی جان بچانے والے وکیل کو بھی بلا کر پوچھ لیں وہ آپ کو بتائے گا میں جب ظفر مسعود کو ہسپتال لے جا رہا تھا تو مجھے ملبے میں سے لوگوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔لوگ اس وقت تک زندہ تھے
آپ لاشیں دیکھ لیں‘ 20 سے زائد لوگوں کی میتیں درست شکل میں تھیں‘ یہ ثابت کرتا ہے یہ لوگ ظفر مسعود کی طرح زندہ تھے لیکن یہ بعد ازاں بروقت مدد نہ ملنے کی وجہ سے انتقال کر گئے‘ لوگ دم گھٹنے اور طیارے کو آگ لگنے کی وجہ سے بھی مر گئے تھے‘ حکومت اگر بروقت کوشش کرتی‘ یہ اگر ہیلی کاپٹر کے ذریعے آگ بجھادیتی یا وقت پرفائر بریگیڈ پہنچ جاتا تو ہم دس بیس لوگوں کو بچا سکتے تھے‘
کیا ہم میں اتنی اہلیت بھی نہیں؟۔ہمیں آج ماننا ہوگا ہم میں اتنی بھی اہلیت نہیں‘ وہ ریاست جو ائیرپورٹ کے گردونواح میں غیر قانونی تعمیرات نہیں روک سکتی‘ جس کے پائلٹ اللہ کے آسرے پرطیارے اڑاتے ہیں‘ جس کے کنٹرول ٹاور میں بیٹھے لوگوں کو طیارے کے بند ٹائر نظر نہیں آتے‘ جس کے پاس لاشیں نکالنے اور ملبہ اٹھانے کا بندوبست نہیں‘ جس کے صدر اور وزیراعظم جائے حادثہ پر جانا اپنی توہین سمجھتے ہوں‘
جو دس دن بعد بھی لاشوں کا تعین نہ کر سکے اور جس کے ادارے ایک دوسرے کو ڈی این اے کے سیمپل نہ لینے دیں ہم اگر اس ریاست سے یہ توقع کریں گے یہ فلائنگ کے ایس او پیز پر عمل کرا لے گی تو یہ ہماری خام خیالی ہو گی۔ہمیں بہرحال یہ ماننا ہوگا ہم بحیثیت ریاست ختم ہو چکے ہیں‘ ہم صرف ملبے کا ڈھیر ہیں اور ملبے کے ڈھیروں کا کوئی سسٹم ہوتا ہے اور نہ ہی احساس چناں چہ آپ لکھ لیجیے ہم زندگی میں
کبھی ترقی نہیں کر سکیں گے‘ کیوں؟ کیوں کہ ہمارے سینے میں انسانی جان کی کوئی قدر‘ کوئی اہمیت نہیں‘ ہمارے اردگرد موجود لوگ خواہ مچھروں کی طرح مر جائیں ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہوتی اورآپ تاریخ پڑھ لیں قدرت ایسی لاپرواہ قوموں پر کوئی رحم‘ کوئی کرم نہیں کرتی‘ ایسی قومیں بالآخر ایک دوسرے کو نوچ نوچ کر ختم ہو جاتی ہیں اور ہم بھی تاریخ کے اس انجام کی طرف تیزی سے دوڑ رہے ہیں۔