بھارت نے جب 11مئی1998ء میں دھماکے کیا تو نواز شریف نے قازقستان سے جنرل کرامت کو دھماکوں کی تیاری کرنے کہا ، جنرل کرامت نے یس ’سر‘ یا اوکے نہیں کہا بلکہ سابق وزیراعظم کو کیا کہا تھا ؟ برسوں بعد حقیقت کھل کر سامنے آگئی

1  جون‬‮  2020

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار حامد میر نے اپنے کالم ’’ایٹمی دھماکہ کس نے کیا ؟ ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔نواز شریف لندن میں خاموشی سے زندگی گزار رہے ہیں لیکن انکے سیاسی مخالفین اس خاموشی سے بھی خوفزدہ نظر آتے ہیں۔ انہیں نواز شریف کی خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ لگتی ہے لہٰذا وہ خاموش نواز شریف کیخلاف طوفانی بیان بازی کے ذریعہ آنیوالے نامعلوم طوفانوں کا راستہ روکنے کی

کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔ایسی ہی ایک تازہ کوشش وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کی طرف سے سامنے آئی ہے۔ انہیں کسی نے نواز شریف کی ایک تصویر دکھا دی جس میں نواز شریف لندن کے کسی ریستوران میں اہلخانہ کے ہمراہ چائے پی رہے ہیں۔یہ چائے نجانے کس کس کے دل و دماغ پر بجلی بن کر گری اور شیخ صاحب نے یہ بیان داغ دیا کہ نواز شریف 1998ءکے ایٹمی دھماکوں کے حامی نہیں تھے، ان دھماکوں کی حمایت اس وقت کی کابینہ میں سے راجہ ظفر الحق اور گوہر ایوب خان کر رہے تھے یا میں کر رہا تھا۔راجہ ظفر الحق نے شیخ رشید احمد کے اس دعوے کی فوری تردید کر دی ہے اور کہا ہے کہ 1998ءمیں نواز شریف پاکستان کے وزیراعظم تھے اور دھماکوں کا کریڈٹ اس وقت کے وزیراعظم کے سوا کسی اور کو نہیں مل سکتا۔ شیخ رشید احمد کے اس بیان کے بعد کئی لوگ مجھ سے یہ سوال پوچھ چکے ہیں کہ نواز شریف 1998میں ایٹمی دھماکوں کے حامی تھے یا نہیں؟یہ سوال مجھے غیرضروری سا لگتا ہے کیونکہ جب پاکستان نے ایٹمی دھماکا کیا تو وزیراعظم نواز شریف تھے اور تاریخ میں یہی لکھا جائیگا کہ پاکستان نواز شریف کے دور میں ایٹمی قوت بنا۔ کل مجھے پشاور سے ایک بزرگ اخبار فروش نے فون کیا اور کہا کہ آپ نے ایٹمی دھماکوں سے بہت دن پہلے لکھ دیا تھا کہ دھماکے ضرور ہونگے اور 28مئی 1998کو بھی آپ نے یہ کالم لکھا کہ دھماکے کرنا ضروری ہے، اسلام آباد میں آل پاکستان اخبار فروش یونین کی ایک تقریب بھی ہوئی تھی جس میں آپ نے اور مجید نظامی مرحوم نے اپنی تقریروں میں ان افراد کو للکارا تھا جو ایٹمی دھماکوں کے مخالف تھے لہٰذا آپ

نئی نسل کو ضرور بتائیں کہ 1998میں ایٹمی دھماکوں کا کون مخالف اور کون حامی؟بزرگ اخبار فروش کی فرمائش سن کر میں نے مئی 1998ءکے کالموں کی فائل تلاش کی۔ بھارت نے 11مئی 1998ءکو ایٹمی دھماکا کیا اور 12مئی 1998ءکو میرے کالم کا عنوان تھا ’’تھینک یو مسٹر واجپائی‘‘ جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کو واجپائی کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کیونکہ انہوں نے ایٹمی دھماکا کرکے پاکستان کو

بھی دھماکے کا جواز مہیا کر دیا ہے۔جب بھارت نے دھماکا کیا تو وزیراعظم نواز شریف قازقستان کے شہر الماتے میں تھے۔ انہوں نے وہاں سے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو فون کیا اور کہا کہ آپ ایٹمی دھماکوں کی تیاری کریں۔ جنرل جہانگیر کرامت نے یس سر یا اوکے نہیں کہا بلکہ یہ گزارش کی کہ آپ واپس پاکستان آجائیں، کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی کا اجلاس بلائیں اور پھر کوئی فیصلہ کریں۔ اس وقت کے وزیر اطلاعات

مشاہد حسین الماتے میں نواز شریف کیساتھ تھے۔ نواز شریف نے مشاہد حسین سے پوچھا کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے؟مشاہد حسین نے نواز شریف سے کہا کہ تاریخ نے آپ کو موقع دیدیا ہے کہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا دیں Now or Never(اب یا کبھی نہیں ) والی صورتحال ہے لہٰذا آپ بھارت کے کڑاکے نکال دیں۔ نواز شریف قازقستان سے واپس اسلام آباد پہنچے تو ایئرپورٹ سے وزیراعظم ہائوس جاتے ہوئے

پی ٹی وی کے چیئرمین سنیٹر پرویز رشید انکے ہمراہ تھے۔پرویز رشید نے ان سے پوچھا کہ ایٹمی دھماکوں پر ہمیں کیا پالیسی رکھنی چاہئے؟ نواز شریف نے انہیں کہا کہ قوم کو قربانی کیلئے تیار کریں کیونکہ اگر ہم نے دھماکے کر دیئے تو پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگ سکتی ہیں جس سے یہ تاثر ملا کہ نواز شریف ذہنی طور پر دھماکوں کا فیصلہ کر چکے تھے۔ پھر وزیراعظم ہائوس میں سینئر صحافیوں کیساتھ نواز شریف کی ایک ملاقات ہوئی۔

موضوعات:



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…