ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

جو شخص دو لاکھ روپے انکم ٹیکس دیتا ہے، اس کے کروڑوں روپے کے اخراجات کس نے برداشت کئے؟ شہبازشریف نے چینی سکینڈل کا اصل ذمہ دار وزیراعظم عمران خان کو قرار دے دیا

datetime 21  مئی‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور(این این آئی)پاکستان مسلم لیگ (ن)کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہبازشریف نے چینی سکینڈل کا اصل ذمہ دار وزیراعظم عمران خان کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کمیشن نے چینی برآمد کرنے کے اصل ذمہ دار عمران خان کا بیان ریکارڈ نہیں کیا، انکوائری کمیشن کی رپورٹ محض ایک دھوکہ ہے۔ اگر وزیراعظم نوازشریف جے آئی ٹی میں پیش ہوسکتے ہیں، ہم خطاکار دن رات نیب کی پیشیاں بھگت سکتے ہیں،

عقوبت خانے اور جیلیں بھگت سکتے ہیں تو ان کو کون سا سرخاب کا پر لگا ہوا ہے کہ یہ چینی انکوائری کمیشن کے روبرو پیش نہیں ہوسکتے؟وزیراعظم عمران خان کے کمشن کے سامنے پیش نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کمیشن اتنا کمزور اورخوفزدہ ہے کہ وزیراعظم کو بلانے کی جرات نہیں کرسکا۔ جمعرات کو انٹرویو میں انہوں نے کہاکہ عمران خان کا چینی انکوائری کمشن بنانا الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مترادف ہے۔ یہ معاملہ سبسڈی کا نہیں ہے۔ ماضی میں بھی مختلف حکومتیں گندم اور چینی کی برآمد پر سبسڈی دیتی رہی ہیں۔ لیکن اس کی بنیادی شرائط ہیں۔ ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ جو چیز برآمد ہونی ہے، اس کا اضافی ذخیرہ آپ کے پاس موجود ہونا چاہئے۔ پہلے آپ دیکھتے ہیں کہ آپ کے پاس مقامی سطح پر ضروریات پوری کرنے کے لئے وہ متعلقہ چیز موجود ہونی چاہئے۔ یہ طریقہ غیرملکی زرمبادلہ ملک کے حاصل کرنے کا بھی ایک طریقہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ 2018-19 کے سال میں گنے کی پیداوار کے اعدادوشمار سے ثابت ہوجائے گا کہ چینی برآمد کرنے کے لئے اس کا اضافی ذخیرہ ملک میں موجود نہیں تھا۔ طلب اور کھپت میں توازن کے لئے اضافی زخیرہ نہیں تھا، اس لئے یہ مجرمانہ فیصلہ تھا۔ ای سی سی کے فیصلے پر ذمہ دار وزیراعظم ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے اسدعمر صاحب کو مقررکیا جنہوں نے فیصلہ کیا۔ شوگر ایڈوائزری بورڈ نے خبردار کیا کہ اضافی چینی موجود نہیں ہے، ایکسپورٹ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ای سی سی کے فیصلے کی توثیق وفاقی کابینہ کرتی ہے جس کی صدارت وزیراعظم کرتا ہے۔

انہوں نے کہ 2016کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وزیراعظم پابند ہے۔ کیونکہ وزیراعظم اور کابینہ کو ان تمام فیصلوں کا ذمہ دار بنایاگیا۔ اسی طرح صوبوں میں وزرااعلی اورکابینہ اس کے ذمہ دار ہیں۔ شہبازشریف نے کہاکہ گندم چینی کے فیصلے کھلی آنکھوں، کانوں اور پورے ہوش وہواس سے کیا ہے۔ یہ ایکسپورٹ کا فیصلہ وزیراعظم عمران خان نے کیا۔ مسلم لیگ(ن)کے صدر نے کہاکہ معاملہ افراد کا نہیں، اصل معاملہ حکومت کے مجرمانہ فیصلے کا ہے۔ یہ کئی سو ارب کی ڈاکہ زنی ہے۔

وزیراعظم نے برآمد کی اجازت دی تو شوگرملوں نے اس حکومتی پالیسی سے فائدہ اٹھایا۔ نومبردسمبر2018 میں روپے اور ڈالر کے درمیان فرق 125 روپے تک تھی۔ بعد میں ڈالر کی قیمت 160 پر پہنچ گئی۔ ہر کلوگرام اور ٹن چینی برآمد کرنے والوں نے اربوں روپے کا فائدہ حاصل کیا۔ حکومت نے اس عمل کو نہیں روکا۔ انہوں نے کہاکہ چینی کی برآمد کے بعد ملک میں چینی کی قلت پیدا ہوئی۔ پھر غریب آدمی پر ڈاکہ ڈالا گیا۔ 52 روپے کلو چینی 90 روپے تک پہنچ گئی۔ چینی کی قیمت بڑھا کر اربوں روپے پھر کمالئے گئے۔

شہبازشریف نے کہاکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ساری زندگی عمران خان صاحب کا کچن چلایا ہے۔ جو شخص دو لاکھ روپے انکم ٹیکس دیتا ہے، اس کے کروڑوں روپے کے اخراجات کس نے برداشت کئے؟ قائد حزب اختلاف نے کہاکہ کارروائی تو وزیراعظم کے خلاف ہونی چاہئے۔ سوال تو یہ ہے کہ اس چوربازاری اور ڈاکہ زنی کا فیصلہ کس نے کیا؟ فیصلہ تو وزیراعظم نے کیا لیکن مورد الزام ان کو ٹھہراتے ہیں جنہوں نے وزیراعظم کے اس فیصلے کے تحت برآمد کی۔ اس لئے سب سے بڑا ذمہ دار اس چوری اور ڈکیتی کا وزیراعظم ہے اور اس کے بعد عثمان بزدار کی باری آتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ وزیراعظم چینی انکوائری کمیشن میں کیوں پیش نہیں ہوئے؟ اگر وزیراعظم نوازشریف جے آئی ٹی میں پیش ہوسکتے ہیں، ہم خطاکار دن رات نیب کی پیشیاں بھگت سکتے ہیں،

عقوبت خانے اور جیلیں بھگت سکتے ہیں تو ان کو کون سا سرخاب کا پر لگا ہوا ہے کہ یہ چینی انکوائری کمیشن کے روبرو پیش نہیں ہوسکتے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کمشن اتنا کمزور اورخوفزدہ ہے کہ وزیراعظم کو بلانے کی جرات نہیں کرسکا۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور انجینئر خرم دستگیر خان مسلم لیگ (ن)کی طرف سے خود پیش ہوسکتے ہیں تو وزیراعظم عمران خان بھی پیش ہوسکتے تھے لیکن وہ پیش نہیں ہوئے کیونکہ وہ اس معاملے میں چور ثابت ہوچکے ہیں۔ شہبازشریف کہاکہ 28 مئی کو یوم تکبیر کے حوالے سے قوم کو مبارک دیتا ہوں۔ قائد محمد نوازشریف کی قیادت میں 28 مئی 1998 کو جوہری دھماکے کرکے ملک کے دفاع کو ناقابل تسخیربنایا گیا اور پوری قوم کا سرفخر سے بلند ہوا۔ انہوں نے کہاکہ ملک کے دفاع کا یہ عظیم پروگرام مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے شروع ہوا جس میں تمام آنے والی حکومتوں، اداروں، سائنسدانوں، انجینئرز اور تمام متعلقہ افراد نے اپنا کردار ادا کیا۔ میں ان سب کو خراج عقیدت اورخراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ ان سب کی کاوشوں کی بدولت آج دشمن پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…