اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک ) رمضان شروع ہوتے ہی اشیا خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے اور ذخیرہ اندوزی بھی عروج پر ہوتی ہے لیکن خیبر ایجنسی کے علاقہ جمرود میں نرنجن سنگھ اپنی دکان پر اشیا کی قیمتیں حکومتی نرخ سے بھی کم رکھتا ہے ۔ قومی موقر نامے میں شائع رپورٹ کے مطابق اس نے 1991 میں کریانہ کی دکان کھول تھی، آغاز میں دشواری یہ تھی کہ قبائلی عوام اس کی دکان سے
خریداری میں جھجک محسوس کرتے تھے لیکن نرنجن خود کم گو اور شرمیلا انسان ہے اور صرف اپنے گاہکوں اور علاقے کے بزرگوں سے ہی گفتگو کرتا ہے ، لیکن اسکا 25 سالہ بیٹا گرمیت سنگھ لوگوں کے ساتھ ہر وقت رابطے میں رہتا ہے ۔گرمیت سنگھ کا کہنا ہے کہ ‘‘جس علاقے میں بندہ رہتا ہے تو یہ اس کا فرض بنتا ہے کہ وہ لوگوں کو فائدہ دے ۔ ہم بھی سال کے گیارہ مہینے خود کیلئے کماتے ہیں تو کیا ہوا اگر رمضان کے مہینے میں علاقے کے غریب لوگوں کو فائدہ دیں اور بغیر منافع لئے اشیا فروخت کریں۔’’نرنجن سنگھ جمعہ کے دن اپنی دکان بند رکھتا ہے ۔ جمرود بازار میں پاک افغان شاہراہ پر واقع خالصہ کریانہ سٹور میں نرنجن اور اس کے بیٹے پورے مہینے کسی بھی آئٹم میں اپنا منافع نہیں رکھتے اور یہاں تک کے دکان کا کرایہ بھی اپنی جیب سے دیتے ہیں۔گرمیت نے رمضان کے شروع ہوتے ہی دکان پر نرخ نامہ لگایا تو دکان کی سیل بڑھ گئی کیونکہ ہر شے کی قیمت خرید ہی قیمت فروخت تھی۔ بازار میں ایک ہزار کے لگ بھگ دکانیں ہیں لیکن گرمیت کہتا ہے ان کی سیل پورے علاقے میں سب سے زیادہ ہے ۔ ان کے زیادہ تر گاہک آدھا کلو اور ایک کلو خریدنے والے غریب اور کم آمدن والے لوگ ہیں۔ اس کا کہنا تھا ‘‘میری دکان میں روزانہ لاکھوں کی سیل ہوتی ہے ، رمضان میں ہم کوئی نفع نہیں کماتے ، بس اگر افطاری کے وقت غریب بندے کے منہ سے دعا نکلے اور قبول ہو جائے تو وہ ہمارے لئے کروڑوں روپے منافع سے بھی زیادہ ہے ۔’’