اسلام آباد ( آن لائن) وزیراعظم عمران خان نے وفاقی حکومت کی منظوری کے بغیر ہونے والے تعیناتیوں کا نوٹس لیتے ہوئے ایسے تمام افسران کے تقرر کی تفصیلات طلب کرلیں۔ سیکرٹری محمد اعظم خان نے تمام وزارتوں کو خط لکھ کر اطلاع دی ہے کہ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بغیرتعیناتی وزیر اعظم نے اداروں اور وزارتوں میں خلاف ضابطہ تعیناتیوں پر سخت ایکشن لیا ہے ،رپورٹ کے مطابق وزیراعظم نے
مسلم لیگ ن کے دورحکومت میں تعینات ہونیوالے افسران کی تفصیلات بھی طلب کی ہیں۔ کابینہ کا اختیارحاصل کرنے والے وزراء کی منظوری سے تعینات افسران کی لسٹ بھی طلب کی گئی ہے۔عمران خان نے تمام وفاقی وزارتوں اور انکے ماتحت اداروں سے 30اپریل تک بھرتیوں کی رپورٹ طلب اور بھرتیوں کی رپورٹ 5مئی کو کابینہ اجلاس میں پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے تمام وفاقی سیکریٹریز، ایڈیشنل سیکریٹریز، تمام محکموں کے انچارج کو 18 اگست 2016 کے بعد ہونے والی ایسی تمام تعیناتیوں کی تفصیلات پیش کرنے کی ہدایت کی جس کے لیے کابینہ یا وفاقی حکومت کی منظوری درکار تھی اور اس منظوری کے بغیر تقرر کیا گیا۔اس فہرست میں وہ تمام تعیناتیاں بھی شامل کرنے کی ہدایت کی گئی جو وفاقی کابینہ کے اختیارات غیر قانونی اور دائرہ اختیار کے بغیر کسی وفاقی وزیر یا سیکریٹری کو تفویض کر کے کی گئیں۔وزیراعظم عمران خان کے سیکریٹری اعظم خان کی جانب سے جاری کردہ مراسلے میں مصطفیٰ میکس کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا بھی حوالہ دیا گیا۔ مراسلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے 23 اپریل 2020 اور سپریم کورٹ کے 18 اگست 2016 کے فیصلوں کا ذکر کیا گیا۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے مسابقتی کمیشن پاکستان (سی سی پی) کی چیئرپرسن ودیا خلیل اور اس کے اراکین ڈاکٹر محمد سلیم اور ڈاکٹر شہزاد انصار کے تقرر کو کابینہ نے منظور نہ ہونے کی بنا پر غیر آئینی قرار دیا تھا۔عدالت نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ یہ تعیناتیاں غور کے لیے وفاقی کابینہ کے سامنے پیش نہیں کی گئیں بلکہ تفویض کردہ اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے وزیراعظم نے اس وقت کے وزیر خزانہ کی تجویز کو منظور کیا تھا جس میں کابینہ کو بائی پاس کیا گیا تھا۔سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ جب کسی قانون میں وفاقی حکومت کا فیصلہ درکار ہوگا تو اس سے مراد کابینہ بشمول وزیراعظم کا فیصلہ ہونا چاہیئے۔