اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار سہیل وڑائچ اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔وہ ’’واپس‘‘ آیا، اُس نے دیکھا اور چھا گیا۔ یہ محاورہ ہمارے محبوب اور لائق ہیرو اسد عمر پر پوری طرح صادق آتا ہے۔ 2019میں وہ وزارتِ خزانہ سے نکلے تو یوں لگتا تھا کہ وہ عروج سے زوال کی طرف روانہ ہو گئے ہیں مگر ’’اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے‘‘ کی طرح اسد عمر نے نہ صرف کابینہ میں بطور وزیر
منصوبہ بندی و خصوصی منصوبہ جات دوبارہ سے حلف لیا بلکہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتے ہوئے چند ہی ماہ میں وہ وزیراعظم کے بعد سینئر ترین وزیر بلکہ عملی طور پر نائب وزیراعظم بن چکے ہیں۔اسد عمر، میرے بچپن کے ہیرو ٹارزن کی طرح سیاست کے جنگل کو تسخیر کر چکے ہیں۔ بچپن میں ایک روپیہ آٹھ آنے جمع کر کے جب ٹارزن پر پہلا ناول خریدا تو رات بھر میں خود ٹارزن بن کر جنگل میں رہنے کے خواب دیکھتا رہا۔ بڑا ہوا تو بڑے شہروں میں آ کر پتا چلا کہ شہروں کے جنگل کے ٹارزن حکمران کہلاتے ہیں۔ اسد عمر اس وقت کابینہ کی اقتصادی کمیٹی کے سربراہ، قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے خزانہ کے سربراہ اور سب سے بڑھ کر نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر (NCOC)کے بھی سربراہ ہیں۔ یہ کورونا کے حوالے سے پاکستان کا اعصابی مرکز ہے جہاں سے پورے ملک کے لئے منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ ہر روز صبح دس بجے چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، چیف سیکرٹری اور ان کے معاون سیکرٹری اسد عمر کی سربراہی میں اجلاس میں شریک ہوتے ہیں۔جنرل باجوہ کی ہدایت پر جنرل حمود الزمان، اسد عمر کی اس جدید ترین مرکز میں معاونت کرتے ہیں گویا اس وقت اگر کسی کے پاس اختیارات اور طاقت ہے تو وہ صرف اور صرف اسد عمر ہے۔اسد عمر کوئی عام آدمی نہیں ہیں، ان کا پسِ منظر اتنا مضبوط ہے کہ وہ پاکستان کے معدودے چند پروفیشنلز میں سے ہیں جو کاروباری دنیا میں عروج تک پہنچے۔ ان کے والد جنرل(ر) غلام عمر مشرقی پنجاب سے تعلق رکھتے تھے۔ اپنی فوجی ملازمت کے حوالے سے
جنرل عمر پاکستان کے مختلف حصوں میں تعینات رہے۔ اسد عمر نے ٹاپ ادارے آئی بی اے کراچی سے ایم بی اے کیا اور پھر کارپوریٹ ادارے کے سربراہ بنے۔ ملک میں کسی بھی شخص سے زیادہ تنخواہ حاصل کرنے والے پروفیشنل تھے پھر وہ نوکری چھوڑ کر سیاست میں آئے۔ پی ٹی آئی یوتھ کے رول ماڈل بن گئے اور پھر اسلام آباد کے حلقے سے رکن قومی اسمبلی بن کر وفاقی کابینہ کے رکن بنے۔
ایک پروگرام میں انہوں نے بالکل صحیح کہا تھا کہ وہ نہ سندھی ہیں نہ پنجابی، بلکہ پاکستانی ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت بنی تو وہ بااختیار وزیر خزانہ بنے۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات اور ملک کے اقتصادی مسائل کو حل کرنے کا مشکل ترین ٹاسک ان کے حوالے کیا گیا۔ کچھ ہی ماہ بعد اندرونی اور بیرونی حلقوں میں ان پر سوالات اٹھنا شروع ہو گئے اور یوں بالآخر انہیں کابینہ سے فارغ کر دیا گیا اور حفیظ شیخ کو
مشیر خزانہ بنا دیا گیا جنہوں نے آئی ایم ایف سے قرضے کی شرائط طے کیں اور وہ معیشت کا رکا ہوا پہیہ چلانے میں کامیاب رہے۔کہا جاتا ہے کہ اسد عمر سمجھتے تھے کہ انہیں کابینہ سے فارغ کروانے میں جہانگیر خان ترین کا ہاتھ تھا اس لئے اسد عمر کابینہ میں واپس آئے تو ان کی پرنسپل سیکرٹری اعظم خان اور زلفی بخاری سے گاڑھی چھننے لگی۔ جوں جوں جہانگیر ترین، عمران خان سے دور ہوتے گئے
ان کی جگہ اسد عمر لیتے گئے۔ اپنے والد کے تعلق اور اپنے شاندار کیریئر کے حوالے سے وہ طاقتور حلقوں میں بھی کافی بارسوخ ہیں یوں یہ دور اسد عمر کی نشاۃ ثانیہ کا ہے۔کورونا نے جہاں اسد عمر کو بااختیار بنایا ہے وہاں کابینہ میں یہ چہ میگوئیاں بھی جاری ہیں کہ 50ارب کا کیش 12ہزار فی فرد کے حساب سے تقسیم ہو گیا، 74ارب روپے مزید تقسیم ہو جائیں گے اور 124ارب روپےفی کس میں تقسیم ہوئے اس کا ڈیٹا ہی
شیئر نہیں کیا جا رہا۔ کئی وزرا نے جب یہ مطالبہ کیا کہ اس ڈیٹا سے ہمیں مطلع کیا جائے تو انہیں بتایا گیا اس ڈیٹا کے حوالے سے مکمل پرائیویسی رکھی جائے گی۔ کابینہ کے ارکان اس حوالے سے تشویش کا شکار ہیں کہ انہیں اعتماد میں لئے بغیر رقم کی اس طرح تقسیم آنے والے دنوں میں کہیں بہت بڑا اسکینڈل نہ بن جائے۔جس طرح وفاق میں اسد عمر ٹارزن بن چکے ہیں اور باقی سب وفاقی وزرا نمائشی عہدیدار،
بالکل اسی طرح پنجاب کے وزیراعلیٰ بزدار نے بھی اپنے آپ کو ٹارزن ثابت کیا ہے۔ چار ماہ پہلے پنجاب کی بدانتظامی کو ٹھیک کرنے کے لئے اعظم سلیمان کو چیف سیکرٹری بنا کر بھیجا گیا۔ اعظم سلیمان نے بیورو کریسی کو اوپر نیچے کر کے انتظامیہ کو چلا لیا تھا۔ بزدار صاحب کا انتظامیہ سے عمل دخل ختم ہو گیا تو انہوں نے اضلاع کے دوروں، تصویری جھلکیوں اور میڈیا سرگرمیوں کی طرف توجہ دیدی
لیکن اندر ہی اندر اعظم سلیمان اور عثمان بزدار میں اختیارات کی کھینچا تانی چلتی رہی۔چیف سیکرٹری وزیراعظم اور پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے بااعتماد تھے، طاقتور حلقے بھی ان کی کارکردگی سے خوش تھے مگر وزیراعلیٰ بزدار نے کل وزیراعظم سے ملاقات میں انہیں قائل کر لیا کہ چیف سیکرٹری بدلے بغیر کام نہیں چلے گا۔ اس فیصلے کے بعد سے بزدار ایک بار پھر پنجاب کے ٹارزن بن کر واپس آئے ہیں۔
ذرا ماضی دیکھیں،ان کے راستے میں علیم خان مزاحم ہوئے تو نیب نے گرفتار کر لیا۔ سبطین خان کے وزیراعلیٰ پنجاب بننے کی افواہ اڑی تو وہ بےگناہی کے باوجود گرفتار ہوئے۔ اٹھارہ ماہ کا ریکارڈ گواہ ہے کہ جو بھی وزیراعلیٰ بزدار کے مقابلے میں آیا اسے ان کے راستے سے ہٹنا پڑا۔ یوں ماننا پڑے گا کہ جس طرح کی گیڈر سنگھی اسد عمر کے پاس ہے اس سے بھی اعلیٰ نسل کی
گیڈر سنگھی وزیراعلیٰ بزدار کے پاس بھی ہے۔ وہ بولتے نہیں ہیں مگر کام دکھا جاتے ہیں۔آخر میں دیکھنا یہ ہوگا کہ وفاق کا ٹارزن اسد عمر ہو یا پنجاب کا ٹارزن عثمان بزدار، یہ ملک کے مسائل کے حل کے لئے کیا فارمولا ترتیب دیتے ہیں۔ انہیں طاقت، اختیار اور اقتدار تو مل گیا عوام کو ان کے حقوق کب ملیں گے؟