اسلام آباد (این این آئی) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون انصاف کے اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے اراکین نے نیب قانون کو ”کالا قانون“ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ نیب کو مکمل طور پر ختم کر دینا چاہیے، ای سی ایل میں نام ڈالنا بھی غلط ہے، نیب عدالت کی سزا پر نااہلی بھی غلط ہے،ہائی کورٹ اگر بری کر دے تو کیا واپس سیٹ ہائی کورٹ دلوائے گی؟نیب قانون پر ترمیم کی بات کمیٹی میں ہونی چاہیے،
لامحدود کیلئے اس معاملہ پر بات چیت نہیں ہو سکتی جبکہ وزیر قانون فروغ نسیم نے کہاہے کہ ایک وقت تھا جب اپوزیشن سے نیب قانون میم ترمیم کا ڈرافٹ مانگا تھا، تاخیر اپوزیشن کی جانب سے کی گئی،دس دن کے اندر بتا سکتا ہو ں نیب قانون میں کیا ترمیم کر سکتے ہیں،پہلے کسی کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا،اب بھی کسی کو ٹرک کی بتی کے پیچھے نہیں لگاؤنگا،ہمیں تاریخ اور وقت کا تعین کر لینا چاہیے۔ بدھ کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے اجلاس میں شاہد خاقان عباسی نے نیب قانون میں خامیوں سے متعلق بریفنگ دتے ہوئے کہاکہ نیب کو مکمل طور پر ختم کر دینا چاہیے،نیب کو سیاستدانوں کے خلاف استعمال کیلئے بنایا گیا تھا۔ انہوں نے کہاکہ نیب کی عدالت میں انصاف نہیں ہے،نیب والے کہتے ہیں کہ آپ کو ہائی کورٹ تک پہنچائیں گے،کیا اس ملک میں چور ہم رہ گئے ہیں،اس بار الیکشن کمیشن میں سیاستدانوں نے اثاثوں سے متعلق فارم جمع کرائے۔ انہوں نے کہاکہ وہی فارم بیورو کریٹس اور ججوں سے بھی پر کرائیں۔ انہوں نے کہاکہ چیئرمین نیب کی تعیناتی کے علاوہ میں نے سب کچھ غلط کیا،میاں نواز شریف نے بھی بس صرف دو ہی کام ٹھیک کیے وہ کام کیا ہیں نہیں بتا سکتا۔ انہوں نے کہاکہ خورشید شاہ اور میں نے چیئرمین نیب مل کر لگایا،اب دونوں ہی نیب کے شکنجے میں ہیں۔ انہوں نے کہاکہ نیب میں خورشید شاہ سے ملاقات ہوئی تو کہا کہ اب دیکھ لیں،میرے سارے رشتہ داروں کی جائیدادیں چیک کی گئیں،ان رشتہ داروں کو کہا گیا کہ یہ جائیداد آپ کی نہیں شاہد خاقان کی ہے۔
انہوں نے کہاکہ میری بہو کے والد کو بھی کہا گیا کہ آپ کے نام پر جائیداد شاہد خاقان کی بینامی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ای سی ایل میں نام ڈالنا بھی غلط ہے،ضمانت پر ہوں اگر ملک سے بھاگتا ہوں تو عدالت کو جوابدہ ہوں۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان سے بھاگنا مشکل نہیں ہے، تین گھنٹے بعد آپ کو کابل سے رابطہ کر سکتا ہوں۔ انہوں نے کہاکہ نیب عدالت کی سزا پر نااہلی بھی غلط ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہائی کورٹ اگر بری کر دے تو کیا واپس سیٹ ہائی کورٹ دلوائے گی؟۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں خواجہ سعد رفیق نے کہاکہ ایک صاحب کا نام شہزاد اکبر ہے،
شہزاد اکبر نے میڈیا بیان دیا اور کہاکہ اپوزیشن نیب قانون میں ترمیم چاہتی ہے،اب اگر اپوزیشن اور حکومت کے درمیان بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا،ہماری مشترکہ اپوزیشن اور حکومت کی کوششوں کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ وزیر قانون حسین و جمیل آدمی ہیں،وزیر قانون بات بھی بڑی حسین کرتا ہے،اپوزیشن خرابی کرتی ہے تو لوگوں کو پتہ چلنا چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ ایک غیر منتخب شخص اس ماحول کو خراب کرنا چاہتا ہے،ہاوس کی اسٹینڈنگ کمیٹی اس معاملہ پر موجود ہے۔ انہوں نے کہاکہ گزارش یہ ہے اسٹینڈینگ کمیٹی پر بات ریکارڈ کا حصہ بھی ہے،
نیب کا قانون ایک آمر نے بنایا تھا۔ انہوں نے کہاکہ یہ سیاستدانوں کی وفاداریوں کو بدلنے کے لیا بنایا گیا،نیب کا قانون پی ٹی آئی نے نہیں بنایا،نیب کا قانون بہت سے لوگ بھگت کر آ گئے،خدشہ یہ ہے اس قانون میں تاخیر اس لیے کی جا رہے کیونکہ ابھی کچھ شکار باقی ہے،اگر قانون میں ترمیم کرنی ہے تو سیدھی بات کی جائے۔ انہوں نے کہاکہ میری استدعا یہ ہے نیب قانون پر ترمیم کی بات اس کمیٹی میں ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ لامحدود کے لیے اس معاملہ پر بات چیت نہیں ہو سکتی۔ وزیر قانون فروغ نسیم نے کہاکہ ایک وقت تھا جب اپوزیشن سے نیب قانون میم ترمیم کا ڈرافٹ مانگا تھا،
تاخیر اپوزیشن کی جانب سے کی گئی۔فروغ نسیم نے کہاکہ دس دن کے اندر یہ بتا سکتا ہو ں کہ نیب قانون میں کیا ترمیم کر سکتے ہیں،پہلے کسی کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا،اب بھی کسی کو ٹرک کی بتی کے پیچھے نہیں لگاؤنگا،ہمیں تاریخ اور وقت کا تعین کر لینا چاہیے۔ رانا ثناء اللہ نے کہاکہ ایسا کیوں نہیں کرتے وزارت قانون اپنا ڈرافٹ بنا کر بحث کرا لیے،دس دن کا وقت زیادہ ہو گا،دس دن کو کم کرکے سات دن کیا جائے۔فروغ نسیم نے کہاکہ عدالتی فیصلے، اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات اور اپوزیشن کی ترمیم کا جائزہ لینے کے لیے دس دن زیادہ نہیں ہے۔محمود بشیر ورک نے کہاکہ تمام قوانین برے نہیں ہوتے،سوال یہ ہے قانون کااستعمال کون کر رہا ہے؟۔
انہوں نے کہاکہ ن لیگ اور پی پی پی دور میں نیب قانون کا غلط استعمال نہیں ہوا،اب ماحول بناہے کہ ہم سیدھی سیدھی ترامیم کریں،ایک ترمیم تو 90 دن کا ریمانڈ نہیں ہونا چاہیے،ضمانت کا اختیار دیا جائے۔ انہوں نے کہاکہ عدالتی فیصلوں کو نیب قانون کی ترمیم میں شامل کیا جائے۔ احسن اقبال نے کہاکہ فروغ نسیم کی بات دل کو لگی،کیا ہماری کمیٹی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہے،منسٹر صاحب کہتے ہیں اجلاس ان کیمرہ ہو،منسٹر صاحب کہتے چھوٹی کمیٹی میں نیب قانون میں ترمیم کا بتا دونگا۔فروغ نسیم نے کہاکہ نیب قانون میں ترمیم کا فیصلہ پارلیمنٹ نے کرنا ہے،نیب قانون میں کیا ترمیم ہونی ہے کیا نہیں ہونی،پارلیمنٹ نے فیصلہ کرنا ہے،کیا پارلیمنٹ کی ذیلی کمیٹی کی کوئی حیثیت نہیں ہے،چھوٹے فورم سے سفارشات زیادہ بہتر آتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اگر کہتے ہیں تو ذیلی کمیٹی کو بھول جاتے ہیں،اجلاس ان کیمرہ نہیں کرنا تب بھی حاضر ہوں،
میری تجویز یہ تھی ذیلی کمیٹی میں کام زیادہ فعال طریقے سے ہو سکتا ہے۔اجلاس میں اہل تشیع میں طلاق کے طریقہ کار کے حوالے بل پر بحث کی گئی۔ شیعہ رہنما طیبہ خاتم نے کہاکہ شیعہ مسلک کے لیے طلاق کا طریقہ کار طے ہونا چاہئے، شیعہ لڑکی کی وراثت کے حوالے سے قانون سازی ہونی چاہیے۔ علامہ افتخار حسین نقوی نے کہاکہ شیعہ مسلک میں طلاق کا جو طریقہ کار چل رہا وہ درست نہیں، ہمارے ہاں شرعی طلاق کے لیے دو گواہوں کی ضرورت ہے۔علامہ افتخار حسین نقوی نے کہاکہ عدالت میں کیس جائے تو مرد نہ آئے تو ایکس پارٹی فیصلہ ہو جاتا۔ افتخار حسین نقوی نے کہاکہ عدالتی فیصلے کے باوجود مرد شرعی طلاق نہیں دیتا، آئین پاکستان شیعہ مسلک کے لیے قانون سازی کا کہتا ہے۔افتخار حسین نقوی نے کہاکہ سپریم کورٹ نے بھی طلاق کے حوالے سے قانون سازی کا کہا ہے۔ کشورہ زہرہ نے کہاکہ 2 دن پہلے عورتوں کے حقوق کا عالمی دن گزرا، ہر فورم پر خواتین کے حقوق کی بات کی گئی۔ محمود بشیرورک نے کہاکہ میرا دین اسلام ہے، مجھے خواتین کا بڑا احترام ہے، ہو سکتا ہے غلط فہمی کی وجہ سے بل آیا ہو۔