اسلام آباد(آن لائن)ڈائریکٹر جنرل اینٹی نارکوٹکس فورس(اے این ایف) نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی انسداد منشیات کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اینٹی نارکوٹکس ملک کی 32 ایجنسیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے،اتنے زیادہ کنٹینرز کی ترسیل کو چیک کرنا ممکن نہیں ،زیادہ تر آپریشن انفارمیشن اور انٹیلی جنس رپورٹ پر کیئے جاتے ہیں ،تمام 32 ایجنسیاں اے این ایف کو منشیات سے متعلق معلومات فراہم کرتی ہیں،
گوادر میں اے این ایف ڈاریکٹریٹ بنانے کی سفارش کرتے ہیں،سی پیک کی وجہ سے گوادر پورٹ پر کنٹینرز کی ترسیل زیادہ ہے ،افغانستان 2لاکھ 63ہزار ایکڑ پوست کاشت ہوتی ہے ،پوست کاشت کرنے کا تمام علاقہ طالبان کے کنٹرول میں ہے،حکومت کو رونا روتے ہیں ہمارے پاس مین پاور کی کمی ہے۔سینٹ کی قائمہ کمیٹی انسداد منشیات کا اجلاس چیئرمین سردار محمد شفیق ترین کی زیر صدارت منعقد ہوا ۔جس میں ڈی جی اے این ایف میجر جنرل عارف ملک، سیکرٹری نارکوٹکس اے ڈی خواجہ اور کمیٹی ممبران نے شرکت کی ۔اجلاس میں کمیٹی ممبر سینیٹر قیوم نے سوال کیا کہ اینٹی نارکوٹیکس فورس کس ایجنسی کی رپورٹ پر کاروائی کرتی ہے؟ جس پر ڈی جی اے این ایف میجر جنرل عارف ملک نے جواب دیا کہ اینٹی نارکوٹکس ملک کی 32 ایجینسیز کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے اوراتنے زیادہ کنٹینرز کی ترسیل کو چیک کرنا ممکن نہیں ،زیادہ تر آپریشن انفارمیسن اور انٹیلی جنس رپورٹ پر کیئے جاتے ہیں ،تمام 32 ایجنسیاں اے این ایف کو منشیات سے متعلق معلومات فراہم کرتی ہیں۔ڈی جی نے مزید بتایا کہ گوادر میں اے این ایف ڈاریکٹریٹ بنانے کی سفارش کرتے ہیں،سی پیک کی وجہ سے گوادر پورٹ پر کنٹینرز کی ترسیل زیادہ ہے ،افغانستان 2لاکھ 63ہزار ایکڑ پوست کاشت ہوتی ہے ،پوست کاشت کرنے کا تمام علاقہ طالبان کے کنٹرول میں ہے۔ ڈی جی میجر جنرل عارف ملک کا کہنا تھا کہ
حکومت کو رونا روتے ہیں ہمارے پاس مین پاور کی کمی ہے ۔اس موقع اجلاس میں موجود پیر صابر شاہ نے سوال کیا کہ کیا حکومت تیرا کے علاقے میں چرس کی فیکرٹری لگا رہی ہے جس پر میجر جنرل عارف ملک نے کہ کہ ایسی کوئی فیکٹری نہیں لگ رہی لیکن دوائی بنائی جاتی ہے اور ایک پودے سے تیل بنا کر کینسر کا علاج کیا جاتا ہے۔اجلاس میں سیکرٹری نارکوٹکس اے ڈی خواجہ کا نے بتایا کہ فرانزک کے
حوالے سے اے این ایف کو اب سامان ڈونرز نہیں دیتے اور پاکستان 2001 میں پوپی فری ملک قرار دیا گیا تھالیکن تمام منشیات افغانستان سے آ رہی ہیں۔کمیٹی ممبر سینیٹر عبدالقیوم نے کمیٹی نکتہ اٹھایا کہ قائداعظم یونیوورسٹی اور کامسٹس یونیوورسٹی میں نے سروے کیا اور پاکستان میں6.7ملین لوگ منشیات کے عادی ہیں،کیپی کی 11 فیصد لوگ نشے کے عادی ہیں،ائرپورٹ پر منشیات میں 100 مین سے ایک بندہ پکڑا جاتا ہے۔
سینیٹر عبدالقیوم کا کہنا تھا کہ اے این ایف نے بتایا جب ہم۔پکڑتے ہیں تو جان سے مارنے کی دھمکی دی جاتی ہے،یہ پورا ایک ریکٹ ہوتا ہے جہاز کے عملے سے لیکر تمام لوگ شامل ہیں۔سینیٹر سیمی ازدی نے کہ کہ پرائیویٹ سکولوں مین ڈرگز مل۔رہی ہیں، اس کا سروے ہم نے خود کیا ہے،ہمارے نوٹس میں آیا ہے کہ ٹیچرز خود منشیات فراہم کر رہے ہیں۔ڈی جی نے بتایا کہ ڈرگز میں امریکہ میں
64 ایجنسیاں کنٹرول نہیں کرسکیں اورسکولز انتظامیہ اور والدین کے ساتھ بھر پور سیمینار کیئے ،آرمی کے تعلیمی اداروں میں طلبا کے ڈرگز ٹیسٹ لازمی قرار دیئے ہیںجبکہ باقی ادارے داخلوں کی کمی سے ٹیسٹ نہیں کرواتے ۔پیر صابر شاہ نے کہا کہ اسلام آباد کے سکولوں میں لڑکیاں منشیات استعمال کر رہی ہیں،لڑکیاں کو کش لگاتا دیکھ کر حیران ہوا ہوں ،لڑکیوں کے سوٹے سے لگتا تھا فیکٹری کا دھواں ہے ،
ادارے کی اونر کو خود چرس کے سوٹے لگاتے دیکھا ہے ،ممبر کمیٹی کے اعتراف پر ارکان کمیٹی نے قہقے لگا دیئے جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ یہ ہنسنے نہیں رونے کا مقام ہے ،پیر صابر شاہ نے کہا کہ ادارے کا نام نہیں لیتا اوور آل بات کر رہا ہوں ،کیا تعلیمی اداروں میں بچوں کے ٹیسٹ کیئے جاتے ہیں ،
چرس اب معمولی ہے کے پی آئس بھی کھلے عام چل رہی ہے،آئس کے استعمال سے 72 گھنٹے نشے کا اثر رہتا ہے،32ایجنسیاں کام کر رہی ہیں پھر بھی رزلٹ زیرو ہے ۔ہر شہر میں پلوں کے نیچے نشئی بیٹھے ہوتے ہیں ۔اس پر ڈی جی اے این ایف نے کہا کہ یہ ہماری زمہ داری نہیں پولیس کی ہے ۔جس پر پیر صابر شاہ نے کہا کہ سیکرٹری قانون کو بلا کر قانون سازی کی ضرورت ہوئی تو کریں گے ۔