اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما و سینیٹر مشاہد اللہ خان کا کہنا تھا کہ مرد اور عورت پر بحث انتہائی فضول ہے ۔ میرا جسم ، میری مرضی کا مطلب فحاشی ہے ۔ کونسا مرد ہے جو اس بات کی اجازت دے سکتا ہے کیا کوئی اپنی ماں سے ایسا کہہ سکتا ہے یا وہ جا کرروڈ پر یہ بات کر سکتی ہے؟کسی بہن ، بیٹی کر سکتی ہے؟ نہیں کرسکتی ۔ تفصیلات کے مطابق سینئر سیاستدان مشاہد اللہ خان کا
سینٹ میں خطاب کے دوران کہنا تھا کہ جو لوگ یہ کر رہے ہیں ، اس کی تفتیش کر یں ، جذباتی نہ ہوں۔ ان کے پیچھے کونسی طاقتیں ہیں جو پاکستان میں یہ سب کروا رہی ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے کسی نے بتایا ہے کہ ٹی وی شو پر کوئی خلیل الرحمان قمر نے باتیں کیں ہیں وہ کر سکتا ہے ، اگر کوئی مولوی ہوتا تو کوئی بات تھی لیکن اگر وہ بھی برداشت نہیں کر پایا تو اس میں کوئی نہ کوئی حقانیت تو ہو گی نہ پھر ۔ مشاہد اللہ خان کا کہنا تھا کہ حکمرانی کرنے کا ایک نیا طریقہ یہ نکالا گیا ہے کہ پیسے بانٹو پہلے ، بندوق سے تلوار سے لوگوں کو رعایا بنایا جاتا تھا تاکہ وہ ’’نو ‘‘ نہ کریں لیکن اب طریقہ نکلا ہے کہ این جی اوز ہیں ، تھینک ٹینک ہیں ، وہ پیسے دے دیتے ہیں اور فیصلہ ہوتا ہےیہ پیسے ہیں یہ کام فلاں ملک میں کرنا اس کا یہ فنڈ ہے ، اور اس فنڈ کو پہنچانا ہے ،میں آپ کو ایک بات بتائوں کہ ماں سے زیادہ کسی کوکسی سے محبت ہو سکتی ہے نہیں ہو سکتی تو ماں ’’عورت ‘‘ ہی ہے نا ۔ جو بہن ہوتی ہے وہ اپنے بھائیوں سےکتنا پیار کرتی ہے بھائی بھی بہنوں سے پیار کرتے ہیں ۔ اسی طرح بیٹیاں ہوتیں اور بہوئیں بھی ہوتی ہیں ۔ یہی معاشرہ ہوتا ہے پھر آپ کی دیگر جاننے والیاں ہوتیں ہیں۔ اصل میں تو کوئی فرق تو نہیں صرف جنس کا فرق رکھا گیا ہے تھوڑا سا تاکہ یہ دنیا چلے ورنہ دنیا چل نہیں سکتی تھی ۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے ایک بات سمجھ نہیں آتی ہم کس دل سے مرد کیخلاف بات کرتے ہیں
،میں مرد کیخلاف اس لیے کہہ رہا ہوں کہ یہ میرے نزدیک ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پوری دنیا میں یہ بات ہو رہی ہے اور اس کے پیچھے ویسٹرن انٹرسٹ ہے اور مانیٹری بینیفٹ بھی ہیں اور ہمارے ملک تو یہ خاص طور پر ہیں ۔ اگر کسی عورت نے کسی مرد کیخلاف بات کرنی ہے تو وہ ضرور کرے اس کو پورا حق حاصل ہے ، میں کسی مارچ کیخلاف نہیں ہوں ، لیکن مرد کیخلاف بات کرنے سے پہلے
عورت کو اپنے باپ کیخلاف بات کرنا ہو گی، اپنے شوہر کیخلاف بات کرنی چاہیے ، اپنے بھائی کیخلاف بات کرنی چاہیے ، اپنے داماد کیخلاف بات کرے پھر کہے کہ مرد برے ہیں تو میں مانوں گا ۔ حق حاصل کرنے کا ایک طریقہ کار ہے ، چاہے وہ عورت ہو یا مرد ہو وہ ایک طریقے کار کے تحت حق حاصل کریں گے ۔ خواتین نے تو نبی کریمؐ کیساتھ جنگ میں اپنا کردار ادا کیا ہے ، نرسوں کا کردار ادا کیا ، پانی پلایا ۔
ان کا کہنا تھا کہ میں یہ باتیں اس لیے کر رہا ہوں دوسرے لوگ جنہوں نے این جی اوز بنائیں ہوئی ہیں ، وہاں عورت کیا حیثیت ہے ۔ دین اسلام عورت کو جو مقام دیتا ہے وہ دنیا کا کوئی مذہب نہیں دیتا ۔ وراثت میں تو دو، دو حصے ہیں عورت کے ایک اس کے باپ کی طرفسے دوسرا اس کے شوہر کی طرف سے ہے ۔ مجھے بتائیں کہ آج تک امریکا کی صدر کوئی خاتون کیوں نہیں بنی؟ پاکستان میں تو
بے نظیر بھٹو دو دفعہ وزیراعظم بنی ہیں ۔ فاطمہ جنا ہماری لیڈر تھیں لیکن ان عورتوں نے کبھی یہ کہا کہ میرا جسم ، میری مرضی ۔ یہ اس ملک کی معاشرے کو برباد کر دینے مترادف ہے ۔ اس کی اجازت کوئی مذہب نہیں دیتا لیکن آپ کریں پھر بھی ہم آپ کو روکیں گے نہیں لیکن جو غلط ہے اسے غلط کہیں گے ۔ ہم نے کلمہ پڑھا ہے ، ہم اس ملک کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ اس کو کچھ ٹکوں کیلئے ہم برباد نہیں کر نے دے سکتے ۔
میں تو یہ سمجھتا ہوں جو یہ سب کام کر رہے ہیں ان کے گھر والے بھی ان باتوں کو پسند نہیں کرتے۔ مرد کے بغیر عورت نہیں اور عورت کے بغیر مرد نہیں ہے ۔ مشاہد اللہ خان کا کہنا تھا کہ مدینہ پاک میں جب اسلام آگیا تو حضور پاک ؐ جب گلیوں سے گزرتے تھے تو خواتین سے کہا جاتا تھا کہ اڑھنیاں لے لوبہت ساری خواتین اڑھنیا ں نہیں کرتیں تھیں جب وہ نبی پاک ؐ کے سامنے سے گزرتیں تھیں تو کبھی
آپؐ نے انہیں ڈانٹا نہیں ہے ، نبی پاکؐ ہمیشہ آرام سے ان کیساتھ بات کرتے تھے ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں فخر ہونا چاہیے ہمارا مذہب اسلام ہے ، ہمیں کسی میرا جسم ، میری مرضی کی کسی این جی اوز کو فالو کرنے کی ضرورت ہر گز نہیں ہے ۔ اپنی بیویوں ،مائوں ، بیٹیوں اور بہوئوں کو گھر میں بٹھا کر رکھو اور اس کے بعد آ کر کہو کہ میرا جسم ، میری مرضی ، یہ سب یہاں نہیں چلے گا اور ایسے نظام کو انشاء اللہ نہیں چلنے دیں گے ۔