اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)عملی سیاست سے نواز شریف کے بعد ن لیگ پر شہباز شریف کا مکمل کنٹرول قائم ہو چکا ہے ۔ مقامی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ بڑھتی عمر ، صحت کی خرابی ، عدالت کی طرف سے نااہلی و قید کی سزا ور نئے مقدمات کے پیش نظر نواز شریف نے سیاست سے ریٹائرمنٹ لینے کا فیصلہ کیا تاہم وہ بطور قائد پارٹی کو اہم مشورے اور تجاویز دیتے رہے ہیں گے ۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف کو سب سے زیادہ مایوسی سپریم کورٹ کی جانب سے ناہل قرر دیئے جانے کے فیصلے سے ہے کیونکہ اس فیصلے کی وجہ سے وہ انتخابی سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے ۔ سابق وزیراعظم کو یہ دکھ بھی کہ ووٹ کو عزت دو کے نعرے کو لے کر انہوں نے جس طرح قربانیاں دیں اس کے جواب میں پارٹی کارکنان اس طرح باہر نہیں کلے جس کی انہیں توقع تھی ۔ اسلام آباد میں موجود ایک لیگی رہنما کے بقول بالخصوص کوٹ لکھپت جیل اور اس کے بعد ہسپتال منتقل ہونے پر نواز شریف کو توقع تھی کہ کارکنان بڑی تعداد جیل کے باہر یا ہسپتال کے باہر پہنچ جائے گی لیکن چند سو کارکنوں کے علاوہ بڑی تعداد گھروں میں بیٹھ کر سوشل میڈیا پر پارٹی قائد کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتی رہی ۔ نواز شریف کو یہ قلق بھی ہے کہ ان کی اسیری کے ایام میں پارٹی رہنمائوں کو جس شدت کے ساتھ پارلیمنٹ میں یہ اٹھانا چاہیے تھا ایسا نہیں کیا گیا ۔ ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل کئے جانے اور احتساب عدالت کی سزا کے بعد اگر نواز شریف نے عملی سیاست سے کنارہ کش ہو کر مریم نواز کو جانشین بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا لیکن فیملی کے چند قریبی لوگوں سے اپنے اس ارادے کا کھل کر اظہار انہوں نے کچھ عرصہ پہلے کیا ہے تاہم مریم نواز کو فوری طور پر پارٹی کمان دینے سے متعلق ان کی خواہش پوری نہیں ہو سکی ہےکیونکہ شہباز شریف کی موجودگی میں یہ ممکن نہیں اور پھر یہ کہ طاقت کے مراکز کیلئے فی الحال مریم نواز کسی صورت قابل قبول نہیں ہیں ۔ ذرائع کے مطابق شہباز شریف کی سیاست امکانات کا کھیل ہے فی الحال تو یہی فیصلہ ہوا ہے کہ عملی سیاست کی بجائے نوازشریف بطور قائد پارٹی قیادت کو گائیڈ لائن فراہم کرتے رہیں گے ۔