کراچی (این این آئی) خواتین سے زیادتی کے متعلق قانون سازی کے کیس میں عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 2، 2 سال تک ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ نہیں آئے گی تو ملزمان کو سزا کیسے ہوگی؟تفصیلات کے مطابق سندھ ہائیکورٹ میں خواتین سے زیادتی کے ملزمان کو سخت سزا دلوانے پر قانون سازی سے متعلق کیس کے دوران، انسپکٹر جنرل(آئی جی) سندھ کے خلاف عدالتی فیصلے پر عمل نہ کرنے پر توہین عدالت کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ مذکورہ کیسز کے متعلق اصلاحات نہیں ہوئیں، 6، 6 ماہ تک مقدمات درج نہیں ہوتے۔ عدالت کے طلب کرنے پر سیکریٹری داخلہ سندھ اور آئی جی سندھ سماعت میں پہنچے۔عدالت نے دریافت کیا کہ سیکریٹری داخلہ صاحب بتائیں، کیا فنڈز کا کوئی ایشو ہے گواہوں کے تحفظ کا قانون بنایا مگر کیا عمل کر رہے ہیں؟ ریپ کیسز میں اسکریننگ تک نہیں ہو رہی، آئی جی صاحب، تفتیشی افسر ڈی این اے لینے سے انکار کردے تو کیا کریں گے؟آئی جی سندھ نے کہا کہ بہت سے کیسز میں ڈی این اے کیے گئے ہیں، ہمارا ایک ایس او پی ہے اس پر عمل کر رہے ہیں۔درخواست گزار نے کہا کہ ایک تفتیشی افسر نے 6 ماہ تک ڈی این اے نہیں کروایا جس پر عدالت نے آئی جی سے دریافت کیا کہ آپ اپنے تفتیشی افسر کا کیا کریں گے جو ایس او پی پر عمل نہیں کرتا۔عدالت نے کہا کہ کیا آپ نے ایس ایچ او کو کوئی ہدایات جاری کیں؟ لوگوں کو تو سادہ ایف آئی آر تاخیر سے کٹنے کی شکایت ہوتی ہے۔عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈی این اے کے لیے لکھا جاتا ہے، اگر ضروری ہو تو، ان الفاظ پر آپ کے تفتیشی افسران فائدہ اٹھاتے ہیں، ریپ کیسز میں ڈی این اے میں اگر ضروری ہو کہاں سے آگیا؟عدالت نے کہا کہ سندھ میں 598 تھانے ہیں مگر ڈی این اے ٹیسٹ کتنوں میں ہوا۔ درخواست گزار نے کہا کہ ڈی این اے کروانے کے بعد تفتیشی افسر 6 ماہ تک کٹ لے کر گھومتے رہے، جس پر وکیل نے کہا کہ تفتیشی افسر نے ڈی این اے رپورٹ اس لیے نہیں دی کہ پیسے نہیں تھے۔عدالت نے دریافت کیا کہ کیا پولیس کے پاس فنڈز نہیں؟
جامعہ کراچی میں جامعہ جامشورو کے فنڈز سے ڈی این اے ہو رہے ہیں۔ اس طرح آپ کیس خراب کر رہے ہیں، ملزمان بری ہو جائیں گے۔ الزام عدالت پر آتا ہے کہ ملزمان کی ضمانتیں منظور ہوگئیں۔آئی جی سندھ نے کہا کہ زیادتی کے 796 کیسز زیر سماعت ہیں ان کی پوری طرح ذمہ داری لینے کو تیار ہیں، ایک ہفتہ دیں پوری تیاری کر کے عدالت کو آگاہ کردیں گے۔عدالت نے کہا کہ 2، 2 سال رپورٹ نہیں آئے گی تو زیادتی کیسز میں سزا کیسے ہوگی، 2016 اور 2017 کے کیسز میں رپورٹس نہیں آئیں۔ بچوں کے کیسز میں اس طرح مت کریں۔جج نے کہا کہ کراچی یونیورسٹی اور جامشورو یونیورسٹی نے بھی مذاق بنا رکھا ہے، یونیورسٹیز نے کیوں 2، 2 سال سے رپورٹس کو دبائے رکھا ہے۔عدالت نے سیکریٹری داخلہ اور آئی جی سندھ کو فوری اجلاس طلب کرنے کا حکم دے دیا، عدالت نے زیادتی کے کیسز میں سندھ حکومت کو فنڈز کا جائزہ لینے کا حکم بھی دیا۔عدالت نے زیادتی کے کیسز میں مربوط نظام وضع کرنے اور ڈی این اے ٹیسٹ بروقت کروانے کو یقینی بنانے کا حکم دے دیا۔