اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار جاوید چودھری اپنے کالم ’’غبارے پھاڑنے کے علاوہ‘‘میں لکھتے ہیں کہ۔۔۔یہ صرف دو میاں بیوی ہیں‘ دونوں درویش بھی ہیں اور ریاست مدینہ جیسی زندگی بھی گزارنا چاہتے ہیں چناں چہ یہ دو کنال اپنے پاس رکھیں اور باقی 298 کنال پر پناہ گاہیں تعمیر کرا دیں‘ جہانگیر ترین بھی چار پانچ سو مربع زمین کے مالک ہیں‘ ان کے کھاتے سے ساڑھے اٹھارہ ہزار ایکڑ سرکاری زمین نکل آئی تھی‘
ان کے نام پر بجلی کے 90میٹر ہیں‘ وزیراعظم ان کی آدھی زمین بھی پناہ گاہوں کے لیے وقف کر دیں‘ شاہ محمود قریشی پاکستان کے بڑے گدی نشینوں میں شامل ہیں۔ان کے مرید کروڑوں میں ہیں‘ یہ ملتان کے بڑے جاگیردار بھی ہیں‘ وزیراعظم ان کی آدھی زمین بھی پناہ گاہوں میں دے دیں‘ وزیراعظم صرف خسرو بختیار اور محمد میاں سومروکی زمینوں کا تخمینہ بھی لگا لیں اور یہ اعظم سواتی‘ غلام سرور اور فہمیدہ مرزاکے اثاثے بھی دیکھ لیں‘ یہ لوگ کھرب پتی ہیں‘ وزیراعظم ان کے گھر اور جائیدادیں بھی پناہ گاہوں کے لیے وقف کر دیں اور وزیراعظم اپنے مشیروں اور دوستوں کا ڈیٹا بھی دیکھ لیں‘ ان کے اردگرد اس وقت درجنوں ارب پتی ہیں۔عبدالرزاق داؤد ملک کا آدھا قرض ادا کر سکتے ہیں‘ اکرام سہگل اور عمران چودھری کی جائیدادیں بھی دو چار لاکھ بے گھروں کے لیے کافی ہوں گی چناں چہ وزیراعظم ان تمام لوگوں کو بھی نیکی کے اس کام میں شامل کر لیں اور یہ انہیں بھی بے گھروں کا سفیر بنا دیں‘ حکومت تمام نیکیاں صرف اسحاق ڈار کی جھولی میں کیوں ڈالنا چاہتی ہے‘ یہ اگر احتساب میں ایک پاکستان نہیں بنا سکے تو یہ لوگ کم از کم پنا گاہوں کے ایشو پر تو ”دو نہیں ایک پاکستان“ بنا سکتے ہیں‘ یہ کیسی نیکی اور یہ بے گھروں کے ساتھ کیسی مہربانی ہے حکومت کو پورے ملک میں صرف ایک مفرور ملا ‘حکومت نے بائیس کروڑ لوگوں میں صرف اسحاق ڈار کو اس فیاضی اس
مہربانی کے قابل سمجھا ! کیوں؟ آخر کیوں؟۔ہمیں ماننا ہوگا حکومت احتساب کی مکمل ناکامی کے بعد بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکی ہے اور یہ اب مخالفوں کے سائیکل کی ہوا نکالنے پر جت گئی ہے‘ احتساب کا عمل میاں نواز شریف سے شروع ہوا تھا لیکن حکومت 300 ارب روپے کی کرپشن سے ایک پیسہ وصول نہیں کر سکی‘ یہ ایون فیلڈ کے فلیٹس بھی حاصل نہیں کر سکی اور یہ میاں نواز شریف کو جیل میں بھی بند نہیں رکھ سکی‘
یہ لندن بیٹھے ہیں اور یہ 2023ءکے انتخابات سے پہلے واپس نہیں آئیں گے۔میاں شہباز شریف‘ مریم نواز‘ حمزہ شہباز‘ راناثناءاللہ اور مفتاح اسماعیل بھی رہا ہو چکے ہیں‘ خواجہ سعد رفیق‘ شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال بچے ہیں‘ یہ بھی فروری کے مہینے میں اپنے گھروں میں ہوں گے‘ آصف علی زرداری بھی اپنے گھر میں ہیں‘ فریال تالپوربھی گھر پہنچ چکی ہیں اور فواد حسن فواد بھی گھر جا چکے ہیں
اور احد چیمہ بھی مارچ سے پہلے اپنے گھر میں ہوں گے لہٰذایہ حقیقت ہے حکومت کا احتساب بری طرح ناکام ہو گیا‘ پیچھے بچی تھی تبدیلی تو عوام اٹھارہ ماہ میں تبدیلی کا ذائقہ چکھ کر تھک چکے ہیں۔حکومت نے اب تک تقریروں کے سوا کچھ نہیں کیا‘ ملک ایمان دار قیادت کے زیر سایہ تین درجے مزید کرپٹ ہو گیا چناں چہ حکومت نے ڈپریشن میں رسی پیٹنا شروع کر دی‘ یہ اب اسحاق ڈار کے گھر کو پناہ گاہ بنا کر
خوش ہو رہی ہے لیکن سوال یہ ہے اگر عوام اس کے بعد بھی مطمئن نہ ہوئے تو حکومت پھر کیا کرے گی؟ اس کے پاس کیا آپشن بچ جائے گا‘ میرا خیال ہے وزیراعظم کے پاس اس کے بعد چھروں کی رائفل سے غبارے پھاڑنے کے سواکوئی آپشن نہیں بچے گا۔یہ وزیراعظم ہاؤس عرف ریسرچ یونیورسٹی میں دھوپ میں بیٹھ کر غبارے پھاڑا کریں گے‘ حکومت کے 37 ترجمان اس عظیم کارنامے پر تالیاں بجایا کریں گے اور یوں یہ ایک اور شان دار دن گزار کر ریاست مدینہ سے بنی گالا تشریف لے جایا کریں گے‘ اللہ اللہ اور خیر صلا‘ تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آ گئی ہے!۔