اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پی آئی اے 2004سے نقصان میں جارہی تھی ۔ تفصیلات کے مطابق نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار ہارون الرشید کا کہنا تھا کہ پی آئی اے میں خسارے کی وجہ یہ ہے کہ جب بے نظیر بھٹو 1988ء میںپہلی بار اقتدار میں آئیں تو انہوں نے جتنے لوگ تھے انہیں بحال کر دیا اور ان کے کروڑوں روپے کے واجبات ادا کر دیئے ایک ایک آدمی کو بعض اوقات
کروڑوں روپے ملے ظاہر ہے اس سے ادارے نے تباہ ہی ہونا تھا ۔ ان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے ہمیشہ سیاست کی نظر ہوتا رہا ہے اور سیاسی لوگوں کی اس پر ہمیشہ سے نظر رہی ہے ، اس پر پہلے لفٹ کی یونین تھی پھر جماعت اسلامی نے یونین بنائی اور وہ کامیاب ہو گئی جس کے بعد انہیں بہت بری طرح شکست ہوئی ۔ ہارون الرشید کا کہنا تھا کہ سینیٹر مشاہد اللہ اس وقت جماعت اسلامی کی یونین میں تھے یہ بعد میں ن لیگ سے جا ملے اور بہت سارے کارنامے سر انجام دیئے ، مشاہد اللہ کو کراچی کا ایڈ منسٹریٹر بھی بنایا گیا بعد میں انہیں سینٹر اور وزیر بھی بنا یا گیا ۔ مشاہد اللہ کے ایک بھائی تھے جنہیں نیویارک بھیجا گیا تھا جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے وہاں جاکر پراپرٹی کا کام شروع کر دیا جسکی وجہ سے وہ روٹ ہی بند ہو گیا جو سب سے پرانا اور منافع بخش روٹ تھا ۔ سینئر صحافی کا کہنا تھا کہ اس کے بعد نواز شریف کی پی آئی اے پر نظر پڑی تو انہوں نے اپنی یونین بنا لی ، یہ رپورٹس ہیں کہ پیپلز پارٹی نے پی آئی اے میں تقریباً4ہزار اور ن لیگ نے 2ہزار کےقریب لوگ بھرتی کیے ، جس کی وجہ سے پی آئی اے پر یونینز کی گرفت قائم ہو گئی ۔ ہارون الرشیدکا مزید کہنا تھاکہ مجھے یہ یاد ہے کہ بغیر ٹکٹس کے لوگوں کو بٹھایا جاتا رہا ۔ پھرمافیاز بن گئیں ، یونین کے عہدیدار کام تو کریں گے نہیں جو ان کے فیورٹ لوگ ہیں وہ بھی کام نہیں کریں گے ۔ سیاسی جماعتوں کیساتھ ایک کلچر وجود میں آیا ، میں نے خود دیکھا کہ کسی چھوٹی پارٹی کا بھی لیڈر ائیر پورٹ جاتا ہے تو یہ لوگ بھاگے ہوئے آتے ہیں اس کابستہ پکڑا ، اس کا سامان ساتھ لے کر وی آئی پی لائونج میں اسے لے جاتے ہیں ، خاطر مدارت کی جاتی ہے اورخاص پروٹوکول بھی دیا جاتا ہے ۔وقت کیساتھ ساتھ مافیاز کی گرفت کی وجہ سے یہ باور کرا دیا گیا کوئی بھی سیاسی جماعت اس کی پرائیوٹائز کرنے کی حمایت نہ کرے ، چنانچے اتنا عملہ بھرتی کر دیا گیا کہ جس کا دنیا میں کوئی تناسب ہی نہیں ہے ۔