اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)معروف صحافی ، اینکر پرسن ، کالم نگار اپنے کالم ’’یہ وِسل ہے سن لیں‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ابرار حسین چنیوٹ کے گاؤں کرم شاہ میں پیدا ہوئے اور یہ شیخوں کی سب کاسٹ نیکوکارا سے تعلق رکھتے تھے‘ گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتے رہے‘ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے انٹرنیشنل ریلیشینز میں ایم اے اور سی ایس ایس کیا اور پولیس سروس جوائن کر لی۔
یہ مختلف اضلاع میں اے ایس پی اور ایس پی بھی رہے اور خوشاب میں ڈی پی او اور فیصل آباد میں چیف ٹریفک آفیسر بھی اور یہ آخر میں روات پولیس ٹریننگ سنٹر میں پرنسپل ہو گئے‘ یہ پولیس سروس میں ابرار حسین نیکو کارا کہلاتے تھے۔یہ سرکاری حیثیت میں مضبوط‘ دلیر اور عقل مند تھے‘ یہ ملنے والوں کو بہت جلد متاثر کر لیتے تھے لیکن یہ ذاتی زندگی میں کم زور اور حساس تھے‘ خاندان کے دباؤ میں آ جاتے تھے‘خاندان سے چھپ کر شادی کر لی‘ والدین شادی سے واقف نہیں تھے لہٰذا یہ رشتہ تلاش کرتے رہتے تھے مگر یہ انہیں ”ابھی کیا جلدی ہے“ کا لارا دے کر خاموش کرا دیتے تھے‘ اللہ تعالیٰ نے انہیں بیٹا دے دیا‘ دوسرا بیٹا بھی ہو گیا‘ اس دوران کسی دوست نے والدین کو ان کی شادی کی اطلاع دے دی‘ والدہ سخت مزاج تھیں‘ انہوں نے طلاق کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا‘ یہ بیگم کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے‘ طبیعت حساس تھی چناں چہ یہ بیگم اور والدہ دو چکیوں میں پسنا شروع ہو گئے‘ یہ دباؤ اینگزائٹی میں تبدیل ہو گیا‘ اینگزائٹی ڈپریشن بن گئی اور یوں یہ باقاعدہ نفسیاتی مریض بن گئے‘ یہ نفسیات دانوں کے پاس بھی جانے لگے اور ادویات بھی استعمال کرنے لگے‘ اس دوران نیکوکارا کے اندر خودکشی کا رجحان پیدا ہو گیا۔
نفسیات دان نے یہ تبدیلی بھانپ لی لہٰذا اس نے انہیں اکیلا رہنے سے پرہیز کا مشورہ دے دیا‘ ڈاکٹر نے ہدایت کی ”آپ باتھ روم بھی اکیلے نہیں جائیں گے‘ کوئی نہ کوئی شخص دروازے کے باہر کھڑا ہو گا اور آپ اندر سے کنڈی نہیں لگائیں گے“ یہ ہدایات کے مطابق ادویات بھی کھاتے رہے اور ڈاکٹر کی ایڈوائس پر عمل بھی کرتے رہے۔یہ سلسلہ 13جنوری 2020ءتک جاری رہا‘ 13جنوری کی رات ابرار حسین نیکوکارا نے اپنے کمرے میں خود کو گولی مار لی۔ پولیس کو ان کی لاش کے قریب ان کے ہاتھ سے لکھا نوٹ ملا‘ نوٹ میں لکھا تھا ”انسان خودکشی اس لیے کرتا ہے جب وہ بیزار ہو جاتا ہے اور اس کو تخلیق کی سمجھ آ جاتی ہے‘ جب ایک سمجھ دار بندہ اپنی جان لیتا ہے تو اس کی موت پر رویا نہیں کرتے‘ اس کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں“۔