کراچی(این این آئی)شہرقائدمیں سموسے بیچنے والا 10سالہ زاہد عزم اور حوصلے کی مثال بن گیا، لوگ جوق در جوق اس کے سموسے خریدنے کے لیے آنے لگے، ویڈیووائرل ہونے کے بعدباسم احمد فریدی نامی اسکول کے پرنسپل نے بچے کاانٹرمیڈیٹ تک کی تعلیم کا خرچہ اٹھا لیا۔گزشتہ روز سوشل میڈیا پر ایک زاہد نامی بچے کی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وہ کراچی کے کسی اسپتال کے باہر سموسے بیچ رہا ہے،
یہ ویڈیو عتیقہ مرزا نامی ایک سوشل میڈیا صارف نے بنائی۔ زاہد سے اس کے بارے میں جب پوچھا گیا تو اس نے بتایا کہ وہ چوتھی کلاس میں پڑھتا ہے اور روزانہ اسکول کی چھٹی کے بعد یہاں 10،10 روپے میں سموسے بیچتا ہے۔تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے فیڈرل بی ایریا واٹر پمپ میں 10 سالہ بچہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ سموسے فروخت کر کے گھر چلانے میں اپنے والدین کا ہاتھ بٹاارہا ہے۔زاہد پڑھائی کرتا ہے اور شام میں سموسے فروخت کرتا ہے، وہ اسکول اور مدرسے جانے کے بعد شام میں یہاں آجاتا ہے اور کھیلنے کودنے کی عمر میں محنت مزدوری کر کے گھر چلانے میں اپنے والدین کا ہاتھ بٹاتا ہے۔زاہد کے والد ایک چھوٹے سے اسٹال پر اسٹیشنری فروخت کرتے ہیں جس کی آمدنی اس محدود سے گھرانے کے لیے بھی ناکافی ہے۔ اس کی والدہ اسے سموسے بنا کر دیتی ہیں اور وہ روزانہ انہیں فروخت کرتا ہے۔اس حوصلہ مند ننھے بچے زاہدنے بتایاکہ اسے یہ کام کرتے ہوئے 1 سال 2 ماہ ہوگئے ہیں۔زاہد کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد نہ صرف لوگوں نے اس بچے کے بلند حوصلے کو سراہا بلکہ اس کے گاہکوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔زاہد کی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد کراچی کے اسپیک اینڈ اسپیل اسکولنگ سسٹم کے پرنسپل نے زاہد کی انٹرمیڈیٹ تک کی تعلیم کا خرچہ اٹھانے کا ذمہ لے لیا۔گزشتہ روز باسم احمد فریدی نامی پرنسپل نے
فیس بک پر زاہد اور اس کے والد کے ہمراہ کچھ تصاویر شیئرکیں جس کا انہوں نے ایک طویل کیپشن لکھا۔انہوں نے لکھا کہ الحمداللہ مجھے اس بچے سے ملنے کا موقع ملا جس کی ویڈیو گزشتہ روز سے سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی تھی۔باسم احمد فریدی نے لکھا کہ زاہد کا تعلق ایک افغان نژاد خاندان سے ہے اور وہ ایک ایسے مکان میں رہتا ہے جہاں اس کے نانا اور والد پچھلے 30 سال سے رہائش پزیر تھے۔
اسکول پرنسپل نے لکھا کہ زاہد کی 4 بہنیں ہیں اور 2 بھائی ہیں، زاہد اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہے۔انہوں نے لکھا کہ زاہد ایک غریب اور سفید پوش خاندان سے تعلق رکھتا ہے جو محنت مزدوری کرکے اپنے گھر کاچولہا جلاتے ہیں لیکن کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔انہوں نے لکھا کہ زاہد کے والدین سے ملاقات کرنے کے بعد میں نے ان کو زاہد کی تعلیم کے انٹرمیڈیٹ تک کے تمام اخراجات اٹھانے کی پیش کش کی ہے
چونکہ میرا اپنا اسکول اور کوچنگ سینٹر ہے، اِس لیے زاہد کی انٹرمیڈیٹ تک کی تعلیم کے اخراجات میں اٹھائوں گا اور وہ میرے ہی اسکول میں میٹرک تک کی تعلیم حاصل کر سکتا ہے۔انہوں نے لکھا کہ میں نے زاہد کو تعلیم کی پیش کش اِس وجہ سے کی ہے تاکہ اس چھوٹے بچے کا مستقبل بن جائے اور میری اِس پیش کش کو زاہد کے والدین نے بھی قبول کرلیا ہے۔اسکول پرنسپل نے لکھا کہ زاہد کے والد کی
سہراب گوٹھ پر ایک اسٹیشنری کی دکان ہے نیز اِس خاندان کو رہنے کے لیے ایک جگہ کی بھی ضرورت ہے۔انہوں نے لکھا کہ میں نے جب سے زاہد کی تعلیم کے اخراجات اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے تب سے مجھے بہت سی این جی اوز سے فون آرہے ہیں اور وہ سب زاہد کی تعلیم کے لیے مالی امداد دینے کی آفر کر رہے ہیں لیکن زاہد کی تعلیم کا ذمہ صرف میرا ہے اور اِس مقصد کے لیے میں کسی دوسرے سے مالی امداد قبول نہیں کروں گا۔انہوں نے اپنی پوسٹ میں طلحہ خان نامی اس شخص کا بھی شکریہ ادا کیا جس نے زاہد سے ان کی ملاقات کروائی تھی۔