اسلام آبا(آن لائن) بیت المال کے زیرانتظام چلنے والا ادارہ ”دارالاحساس“ ایچ تیرہ کی چھت پر انتہائی بیدردی کے ساتھ قتل ہونے والا بارہ سالہ بچہ احمد مجید کے کیس میں کئی اہم انکشافات ہوئے ہیں۔وقوعہ کے روز مدرسہ کی چھت پر چہرے پر ماسک پہنے تین مشکوک افراد موجود تھے جبکہ اس حوالے سے ملزم نے گرفتاری کے بعد پولیس کے روبرو اپنا ابتدائی بیان ریکارڈ کروایا لیکن پولیس نے ملزم کے اس بیان کو تفتیش کا حصہ بنانے کی بجائے مدرسہ کے ذمہ داران سے گٹھ جوڑ کرلیا۔
پولیس کی طرف سے مذکورہ ادارے کے ذمہ داران کو شامل تفتیش نہ کرنے اور کیس کا رخ موڑنے پر مقتول بچے کے ورثاء نے ازسر نو تحقیقات کروانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔دوسری طرف اس کیس میں گرفتار ملزم نے اپنی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست بھی دائر کردی ہے جس کی پہلی سماعت چھ فروری کو اسلام ماڈل کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج ویسٹ محمد علی وڑائچ کی عدالت میں ہوگی۔موصولہ معلومات کے مطابق یتیم بچوں کی کفالت کے لئے قائم ادارہ ”دارالاحساس“ کے ہاسٹل کی چھت پر چار نومبر2019ء کی شام کو بارہ سالہ یتیم بچہ احمد مجید کو انتہائی بیدردی کے ساتھ قتل کیا گیا۔احمد مجید چھٹی جماعت کا طالب علم اور تین بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔اس کی والدہ نے چھ سال قبل اپنے خاوند عبدالمجید کے انتقال کے بعد گھریلو حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر احمد کو اس ادارے میں داخل کرایا۔تاکہ یتیموں کی کفالت کے لئے قائم اس ادارے میں وہ پڑھ لکھ کر معاشرے کا ایک کامیاب شہری بن سکے۔تین نومبر کو احمد گھر پر چھٹی گزارنے کے بعد اپنی والدہ کے ہمراہ مدرسہ آیا۔چار نومبر کو اس کے روم کی آیا چھٹی پر تھی۔اسی رات احمد کو مدرسہ کی چھت پر قتل کیا گیا۔پولیس کے مطابق سی سی ٹی وی فوٹیج میں شام ساڑھے چھ سات بجے کے قریب احمد اور اسی مدرسہ کے نویں جماعت کا طالب علم اسد کو ایک ساتھ چھت کی طرف جاتے دیکھا جاسکتا ہے۔پھر تقریباً پچیس منٹ بعد اسد اکیلا ہی چھت سے نیچے آیا۔پولیس کا کہناہے کہ اگلی صبح اسد ساڑھے سات بجے مدرسہ سے اچانک غائب ہوگیا۔
اسی روز مدرسہ انتظامیہ کو پتہ چلا کہ احمد کی تشدد زدہ نعش چھت پر زیر تعمیر واش روم میں پڑی ہوئی ہے۔پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق احمد کے سر کے پچھے حصے سمیت جسم اور چہرے پر چودہ مقامات پرگہرے زخم موجود تھے۔مدرسہ انتظامیہ کی غفلت و لاپروائی کا اندازہ یہاں سے لگایاجاسکتاہے کہ احمد کی نعش پوری رات چھت پر پڑی رہی اور انہیں صبح تک خبر ہی نہ ہوسکی۔حالانکہ بتایا گیا ہے کہ اس مدرسہ میں بچوں کی گنتی بار بار کی جاتی ہے لیکن اس روز ایسا نہ کیا گیا۔مقتول بچے کے ورثاء کو اگلے روز پانچ نومبر کو دن بارہ بجے واقعہ سے آگاہ کیا گیا۔
پولیس نے مدرسہ سے غائب پندرہ سالہ لڑکے اسد کی تلاش شروع کی اور اس کے بڑے بھائی نواز کو فون کرکے مدرسہ بلا لیا۔جسے بعدازاں ہتھکڑی پہنا کر تھانے منتقل کر دیاگیا۔وقوعہ کے دوسرے روز مدرسہ سے غائب ہونے والا پندرہ سالہ لڑکا ملزم اسد کو مقامی دکاندار نے کیچڑ میں لت پت نیم بے ہوشی کی حالت میں سڑک کنارے پڑے ہوئے دیکھا تو اسے ساتھ لئے اس کے گھر آگیا۔جس کے بعد ملزم اسد کو اسی حالت میں پہلے تھانہ شمس کالونی پہنچایا گیاجہاں انسپکٹر تصدق کی موجودگی میں ملزم اسد نے اپنا ابتدائی بیان ریکارڈ کروایاکہ وہ اور احمد چھت پر موجود تھے تو تین نامعلوم افراد جنہوں نے ماسک کے ذریعے اپنے چہرے چھپا رکھے تھے
اور ان میں سے ایک دراز قد شخص نے سفیدرنگ کی شلوارقمیض پہن رکھی تھی چھت پر موجود تھے۔جنہوں نے مجھے وہاں سے ڈانٹ کر بھیج دیا جبکہ احمد چھت پر ہی موجود تھا۔قابل ذکرامریہ ہے کہ پولیس نے ملزم کے اس بیان کو اپنی تحقیقات کا حصہ نہیں بنایا۔ملزم اسد کے بڑے بھائی نواز کا یہ کہنا ہے کہ جب پولیس مجھے لے کر مدرسہ کے چھت پر گئی تو زیرتعمیر واش روم میں پڑی ہوئی نعش پہلے مجھے اپنے بھائی کی لگی کیونکہ مجھے اس وقت تک نہیں بتایا گیا تھاکہ اصل معاملہ کیاہے؟ اورمجھے مدرسہ کیوں بلایا گیا ہے؟ پھر پولیس نے بتایاکہ یہ تمہارے بھائی کی نہیں احمد کی نعش ہے اور تمہارے بھائی اسد نے اسے قتل کیا ہے۔ملزم اسد کے بھائی نواز
کا مزید کہناہے کہ جب میں نے نعش دیکھی تو خون میں لت پت تھی۔ اس کے ہاتھ بندھے ہوئے نہیں تھے اور نہ ہی اس کے گلے میں نائیلون کی تار سے پھندہ ڈالا گیا تھا۔مجھے وہیں گرفتار کرکے تھانے منتقل کر دیا گیا۔بعدازاں نعش کے دونوں ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور گلے میں تار ڈالی گئی تھی۔مقتول بچے کے تایا اور اس کیس کے مدعی نذیراحمدکا کہنا ہے کہ پولیس نے اپنی مرضی سے ایف آئی آر درج کی اور ہمیں کہا گیاکہ ملزم اسد کو ایف آئی آر میں نامزد کرو تاکہ تمہارا کیس مضبوط ہو۔ہمیں قوی یقین ہے کہ میرے بھتیجے کے قتل میں کوئی اور بھی ملوث ہوسکتاہے۔ایک پندرہ سالہ لڑکا صرف پچیس منٹ میں اتنی بڑی واردات اکیلے نہیں کرسکتا۔انہوں نے مزید کہاکہ پولیس نے دارالاحساس کے ذمہ داران کو بھی شامل تفتیش نہیں کیا۔
انہوں نے اعلیٰ حکام سے نوٹس لینے اور اس کیس کی کسی ایماندار پولیس آفیسر سے غیرجانبدارانہ تحقیقات کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔انسانی حقوق کے کیسز پرکام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم نوال ویلفیئر ٹرسٹ اور لیگالے لاء فرم نے احمد قتل کیس کی مفت پیروی کرنے اور مقتول بچے کے ورثاء کو انصاف کی فراہمی تک ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔گزشتہ روز نوال ویلفیئر ٹرسٹ کی چیئرپرسن فرخندہ کوکب اور لیگالے لاء فرم کے سی ای او وقارحنیف عباسی نے بتایا کہ مقتول بچے کے ورثاء نے ہمیں وکالت نامہ سائن کرکے دیدیا ہے۔اس کیس میں ہم اس غمزدہ خاندان کی ہر ممکن مفت قانونی مدد کریں گے۔کیس میں بہت سی پیچیدگیاں موجود ہیں۔ایف آئی آر کمزور کاٹی گئی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم سب سے پہلے ملزم اسد کی بعد از گرفتاری ضمانت کی درخواست کا جواب عدالت میں جمع کروائیں گے اور آئی جی اسلام آباد کو تحریری درخواست دیں گے کہ وہ کسی ایماندار اور غیرجانب دار ایس پی لیول کے پولیس آفیسر کو انکوائری سونپنے کا حکم صادر کرئے۔تاکہ اصل حقائق منظرعام پرلایاجاسکے۔