اسلام آباد(این این آئی)آئی ایم ایف نے حکومت کو مزید نئے ٹیکس لگانے اور آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں 300 ارب روپے سے زائد کی ڈیوٹی و ٹیکس چھوٹ و رعایات ختم کرنے کا کہہ دیا۔ نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور ایف بی آر حکام کے درمیان مذاکرات جاری ہیں لیکن ایف بی آر اور آئی ایم ایف کے درمیان ٹیکس وصولیوں کا ہدف کم کرنے اور اضافی ریونیو اکٹھا کرنے کے لئے ریگولیٹری ڈیوٹی اور کسٹمز ڈیوٹیوں کی شرح میں کمی پر ااتفاق نہیں ہوسکا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف ٹیکس وصولیوں کا نظر ثانی شدہ ہدف حاصل کرنے کیلئے مزید ٹیکس لگانے پر زور دے رہا ہے جب کہ آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں بھی 300 ارب روپے سے زائد کی ڈیوٹی و ٹیکس چھوٹ و رعایات ختم کرنے کا کہا جارہا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ جی ایس ٹی کے حوالے ایف بی آر نے کہا ہے کہ مزید ٹیکس لگانے یا درآمدات بڑھانے سے مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوگا، تاہم آئی ایم ایف کا مؤقف ہے کہ ٹیکس وصولیوں کے ہدف میں ایف بی آر پہلے ہی 300 ارب کی کمی کرچکا ہے، البتہ آئی ایم ایف نے نجکاری پراسیس کو آگے بڑھانے کے حوالے سے 27 اداروں کی نجکاری کے لئے ٹرانزیکشن اسٹرکچر کی منظوری پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ذرائع کے مطابق ایف بی آر حکام نے آئی ایم ایف کی ٹیم کو آگاہ کیا ہیکہ ریگولیٹری ڈیوٹی کے نفاذ اور درآمدات کی کمی کی وجہ سے ریونیو شارٹ فال آیا ہے، اگر اس میں تھوڑی سی سہولت دے دی جائے تو اس سے ریونیو میں بہتری آئے گی، تاہم آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پہلے ہی شارٹ فال بہت زیادہ ہے اور اگر ڈیوٹی ٹیکسوں میں کمی کی گئی تو اس سے ادائیگیوں کے توازن میں بگاڑ کے ساتھ ساتھ ذرمبادلہ کے ذخائر بھی متاثر ہونے کا خطرہ ہے اور ایکسٹرنل فرنٹ پر آنے والی بہتری بھی متاثر ہوگی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کی ٹیم آئی ایم ایف حکام کو ٹیکس وصولیوں کے ہدف میں مزید کمی اور ڈیوٹی و ٹیکسوں میں کمی کیلئے آمادہ کرنے میں ناکام رہی ہے، آئی ایم ایف ٹیم کے ساتھ مذاکرات کا چوتھا دور کل ہوگا اور آئی ایم ایف کے ساتھ آئندہ ہفتے پالیسی سطع کے مذکرات ہوں گے جس میں معاملات کو حتمی شکل دی جائے گی اور آئی ایم ایف کے ساتھ دوسرے اقتصادی جائزہ مذاکرات کی کامیابی پرپاکستان کو 45 کروڑ ڈالر کی اگلی قسط ملنے کا امکان ہے، جب کہ پاکستان کو اب تک آئی ایم ایف سے ایک ارب 44 کروڑ ڈالرز قرضے کی دو قسطیں مل چکی ہیں۔