اسلام آباد (این این آئی) سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ و دیگر درخواستوں پر سماعت کے دوران وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کے ساتھ تعاون کی ہدایت کردی۔ بدھ کو عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 10رکنی فل کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر صدارتی ریفرنس کے خلاف دائر رخواستوں پر سماعت کی،
اس دوران پاکستان بار کونسل کے وکیل سلمان اکرم راجا اور عابد حسین منٹو کے وکیل و دیگر افراد پیش ہوئے۔دوران سماعت سلمان اکرم راجا نے موقف اپنایا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے منسوب جائیدادوں کے ذرائع آمدن غیرملکی ہیں، غیر ملکی ذرائع آمدن ہوں تو منی لانڈرنگ، حوالہ یا ہنڈی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لہٰذا قانون کو اپنا راستہ اپنانے دیا جائے۔اس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے پوچھا کہ گوشوارے درست نہ ہوں تو کیا ججز سے ٹیکس حکام وضاحت لے سکتے ہیں؟ کیا ججز کو ٹیکس معاملات میں استثنیٰ حاصل ہے؟ جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ججز کو استثنیٰ حاصل نہیں، ٹیکس حکام سوال پوچھ سکتے ہیں۔سلمان اکرم راجا نے کہا کہ اہلیہ اور بچوں سے ذرائع آمدن پوچھے بغیر جج پر الزام عائد کیا گیا، ججز پر ایسے ہی الزامات لگتے رہے تو ان کا وقار کیا رہ جائے گا؟ جسٹس فائز عیسیٰ اور ان کے اہلخانہ کا وقار مجروح کیا گیا۔وکیل نے کہا کہ حکومت نے جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کو عالمی سطح کی (فراڈن) دھوکا دینے والی کہا گیا اور ان کی اہلیہ کے اسپینش نام کی اسپیلنگ سمجھ نہ آنے پر انہیں فراڈ کا مرتکب قرار دیا گیا۔انہوں نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل صرف حقائق جاننے کا فورم ہے، اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جوڈیشل کونسل حقائق جاننے کے ساتھ ساتھ اپنی رائے بھی دیتی ہے۔ جسٹس فیصل عرب نے پوچھا کہ ہرریفرنس ہی چیلنج ہونے لگے گا تو بات آگے کیسے بڑھے گی؟ اس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ بدنیتی پر مبنی ریفرنس عدالت میں چیلنج ہو سکتا ہے۔
دوران سماعت جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ریفرنس کے بعد جج پردھبہ لگ جاتا ہے، ریفرنس بنانے میں احتیاط برتی جانی چاہیے، اہلیہ اور بچوں والا نکتہ ہم نے نوٹ کر لیا ہے۔انہوں نے کہا کہ منیر اے ملک نے کہا تھا وزرا نے ریفرنس پر پریس کانفرنس کی، ریفرنس کی کارروائی میڈیا میں لیک کرنے کا کیا ثبوت ہے؟ اس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ اخبارات اور ٹی وی کا ریکارڈ فراہم کر دوں گا۔سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کے والدین بھی غیرملکی ہیں،
جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ اور بچے جواب دیے بغیر باہر جاتے تو نتیجہ کچھ اور نکلتا، میڈیا رپورٹس کے مطابق جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ خود ایف بی آر گئیں۔اسی پر جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ ایف بی آر گئی ہیں تو مقدمے کا رخ تبدیل ہوجائیگا جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جسٹس فائز عیسی کی اہلیہ نے خود کو ایف بی آر کے سامنے پیش کیا۔دوران سماعت منیر اے ملک نے کہا کہ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ گزشتہ روز ٹیکس حکام کے سامنے پیش ہوئیں، ان کی اہلیہ نے اپنا ٹیکس ریکارڈ کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کا طریقہ معلوم کیا۔
اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے پوچھا کہ کیا جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ جائیدادوں کے ذرائع آمدن ظاہر کرنا چاہتی ہیں؟ جج کی اہلیہ الزامات کا جواب دینا چاہتی ہیں تو موقع ملنا چاہیے، جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کا ایف بی آر کو جواب عدالت میں بھی پیش کیا جائے۔سماعت کے دوران جسٹس یحییٰ آفریدی نے پوچھا کہ نئی صورتحال میں کیا صدر مملکت ریفرنس پر کارروائی آگے بڑھانا چاہتے ہیں؟اس بارے میں ایڈئشنل اٹارنی جنرل صاحب ہدایات لیکر آگاہ کریں، سب کچھ عدالت پر نہ چھوڑیں، اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وہ عدالتی ہدایات پر عمل کریں گے۔
عدالت عظمیٰ میں سماعت کے دوران سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے ایف بی آر سے کہا غیرملکی اثاثوں پر انہیں نوٹس کیوں نہیں دیا گیا، ایف بی آر حکام نے جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کے ساتھ تعاون نہیں کیا۔اس دوران عدالت کی جانب سے منیر اے ملک سے مذکورہ معاملے پر استفسار کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ میں جسٹس عیسیٰ کا وکیل ہوں ان کی اہلیہ کا نہیں جبکہ جسٹس فائز اپنی اہلیہ کے جوابدہ نہیں۔سماعت کے دوران عابد حسن منٹو کے وکیل بلال منٹو نے دلائل دئیے کہ اٹھارویں ترمیم میں سپریم جوڈیشل کونسل سے ازخود کارروائی کا اختیار واپس لیا گیا، اس پر جسٹس مقبول باقر نے پوچھا کہ صدر مملکت سے ریفرنس دائر کرنے کا اختیار واپس نہ لینا اہم ہے۔
اس پر بلال منٹو نے کہا کہ صدر نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے ریفرنس جوڈیشل کونسل کو بھیجنے کے قابل ہے یا نہیں، عام شہری کونسل کو براہ راست شکایت کر سکتا ہے لیکن حکومت نہیں، حکومت ریفرنس صرف صدر کے ذریعے ہی بھجوا سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ وحید ڈوگر کو ججز کے خلاف درخواست سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجنی چاہیے تھی، ایک موقف یہ آیا کہ صدر ریفرنس کے ساتھ متعلقہ مواد جمع کرنے کا کہہ سکتا ہے، صدر کا یہ کام نہیں کہ اداروں کو مواد جمع کرنے کا کہے، صدر نے جمع شدہ مواد پر ریفرنس بھیجنے کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ صدر خود کیسے اور کہاں سے مواد جمع کرے گا یہ سمجھ نہیں آتی، اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ نے بہت دلچسپ نکات اٹھائے ہیں۔بعد ازاں عدالت نے ایف بی آر کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کے ساتھ تعاون کی ہدایت کردی،ساتھ ہی عدالت نے کہا کہ جسٹس فائز عیسی کی اہلیہ غیرملکی جائیدادوں پر جواب دینا چاہتی ہیں تو موقع دیا جائے۔عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو آئندہ سماعت تک ایف بی آر سے تفصیلات لے کر پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت پیر تک ملتوی کردی۔