اسلام آباد(آن لائن)پاکستانی اجناس دوبئی میں بھارتی مونوگرام سے فروخت ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔چاول، نمک اور فروٹ بھارتی مہروں سے غیر ملکی منڈیوں میں چھایا ہوا ہے۔ کمرشل اتاشیوں کی کارگردگی سوالیہ نشان بن گئی۔ وزارت ِ صنعت و تجارت نے نوٹس لے لیا۔جیوگرافکل انڈیکشن لاء پاکستان میں تاخیر کا شکار ہے جس سے پاکستانی برآمداد کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے تفصیلات کے مطابق
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت اور ٹیکسٹائل کا اجلاس سینیٹر مرزا محمد آفریدی کی زیرِ صدارت ہوا۔ کمیٹی نے بیرون ممالک میں برآمدات کے حوالے سے تعینات کمرشل اتاشیوں کی کارکردگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے متفقہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ وزرات تجارت ان کی ناقص کارکردگی پر نوٹس لے۔اس موقع پر چیئرمین کمیٹی سینیٹر مرزامحمد آفریدی نے کہا کہ ہم بار بار کہہ چکے ہیں کہ کمرشل اتاشیوں کو اجلاس کا حصہ بنائیں،اجلاس کے دوران ان اتاشیوں کو آن لائن وڈیو کانفرنس کی ہدایت کی جائیں جبکہ چیرمین سینیٹ سے درخواست کر یں گے کہ اس اہم معاملے پرعملدرآمد کی ہدایت کی جائے۔ کمرشل اتاشیوں کی ناقص کارگردی کے حوالے سے نوٹس لینا کا فیصلہ بھی کر لیا گیا ہے اس موقع پر سینیٹر امام الدین شوقین نے کہا کہ لکی برآمدات کی فروغ کیلئے کمرشل اتاشی کچھ نہیں کررہے، 10 سال سے اس ملک کی برآمدات میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔اجلاس چیئرمین آئی پی او ڈاکٹر مجیب الدین نے بریفنگ دیتے ہوئے کمیٹی کو تحفظ حقوقِ دانش کے نئے قانون کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ جیوگرافکل انڈیکشن کے قانون کے تحت 121ممالک اپنی اشیاء کے خود مالک ہیں۔ پاکستان میں جی آئی ایس قانون بننے کا عمل تاخیر کا شکار ہے۔جیوگرافکل انڈیکشن کا قانون بھارت میں 1999ء میں بنا جبکہ پاکستان میں ابھی تک نہ بن سکا۔ہندوستان ک باسمتی چاول کا جی آئی ایس 2014میں منظور ہوا۔ پاکستان کو سب سے بڑا نقصان باسمتی چاول کے برآمد کا ہوا دوبئی کی
منڈیوں میں بھارت نے پاکستانی چاول اپنی مہر لگا کر فروخت کیا جا رہا ہے جبکہ قانون کے نا ہونے اور پاکستان کے بیرونِ ممالک میں تعینات کمرشل اتاشیوں کی ناقص کارگردی بھی صفر ہے۔ اگر پاکستان میں یہ قانون بنتا ہے تو پاکستان 122واں ملک ہوگا پاکستان نے اس قانون کے 80برآمدی اشیاء رکھی ہیں چیئرمین آئی پی او نے کہا کہ ممالک اپنی اشیاء کے خود مالک ہوں اس لئے یہ قانون لایا جارہا ہے
انہوں نے بتایا کہ ہندوستان کی 340اشیاء کو اس قانون کے تحت تحفظ حاصل ہے جبکہ پاکستان نے اس قانون کے 80برآمدی اشیاء رکھی ہیں انہوں نے بریفنگ کے دوران کہا کہ پاکستان میں قانون بننے کا عمل تاخیر کا شکار ہوتا ہے اب تک 121ممالک نے اب جی آئی ایس کے قانون بنایا ہے، اگر پاکستان میں یہ قانون بنتا ہے تو پاکستان 122واں ملک ہوگا،اس قانون کے ساتھ ہم نے ایک اندیکیٹیو فہرست بھی
منسلک کی ہے361ایسی اجناس ہیں جو ہندوستان دنیا میں اپنی مہر لگا کر بیچتا ہے اور وہ پاکستان میں بھی دستیاب ہیں جبکہ ہندوستان میں ان اجناس یا اشیاء کا نام مختلف ہے انہوں نے مزید بتایا کہ ایک سو ساٹھ ممالک جیوگرافیکل انڈیکیشن کے تحت اپنی اجناس کو تحفظ دے رہے ہیں،اجناس میں ہینڈی کرافٹ، زرعی اجناس وغیرہ شامل ہیں،بین الاقوامی قانون کے مطابق اجناس کو بین الاقوامی سطح پر اجناس کی
پروٹیکشن کیلئے جے آئی بی ضروری ہے، ایک درجن کے قریب زرعی اجناس کو جے آئی میں ٹریڈ مارک کے تحت رجسٹریشن کی درخواستیں ہیں دنیا کاپی رائٹ میں بہت آگے نکل گئی لیکن بدقسمتی سے ہمارے ستاون سال پرانا ایکٹ ہے، ٹریڈ مارک، کاپی رائٹ ایکٹ میں ترامیم کی ضرورت ہے، جیوگرافیکل انڈیکشن بل کا اختیار وفاقی حکومت کے پاس ہے اس موقع پر چیئرمین کمیٹی سینیٹر مرزا محمد آفریدی نے
چیئرمین آئی پی او سے سوال کیا کہ اس وقت ٹریڈ مارک کیلئے کتنی درخواستیں زیر التوا ہیں، چیرمین آئی پی او نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ کلیکٹو مارک رجسٹریشن کیلئے ایک درخواست زیر التوا ہے جبکہ بناسپتی چاول کی کلیکٹو مارک کی رجسٹریشن کا معاملہ عدالت میں ہے انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان میں 1962 میں کاپی رائٹس کا قانون بنا، اب تک اپ ڈیٹ نہیں ہوا۔ اس موقع پر سینیٹر دلاور خان نے کہا کہ
سینیٹ کا ایک ممبر ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا ممبر ہوتا ہے بطور ممبر ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی میں استعفاء دینے کو تیار ہوں ڈیڑھ سال سیسوال پوچھ رہاہوں مجھے نہیں جواب دیا جارہا انہوں نے کہا کہ جیوگرافیکل انڈیکیشن سمیت کمرشل اتاشیوں کے حوالے سے کمیٹی جلد از جلد وزارت ِ تجارت کو اپنی شفارشات ارسال کرے تاکہ پاکستانی اجناس غیر ملکی منڈیوں میں پاکستانی برانڈ سے فروخت ہو۔