اسلام آباد(آن لائن)ملک کے ممتاز ماہرین قانون نے سابق صدر پرویز مشرف کو پھانسی دینے کے ٹربیونل کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ کے بجائے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کر نے کو غلطی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کے سپیشل کورٹ کو آرڈر دینے کے فیصلہ نے معزز عدالت کی ساکھ پر سوال اٹھا دیا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ جا کر وفاق نے مشرف کا معاملہ خود خراب کر دیاہے۔
اب وفاق سپریم کورٹ میں مشرف کو سزا دینے کے فیصلے کے خلاف کس منہ سے فریق بنے گا۔ مجوزہ معاملہ میں وفاق اور پرنسپل لاء آفسر آف فیڈریشن کا رویہ شروع دن سے قابل مواخذہ رہا ہے۔ بادی النظر میں ٹربیونل نے ان کا فیصلہ وفاق کے حق اور مشرف کے خلاف دیاہے۔ اس کیس میں پٹیشنر وفاق تھا جو اس کے حق میں آنے والے فیصلے کے خلا ف کیسے سپریم کورٹ جا سکتا ہے۔ لیکن گزشتہ روئیے جس میں وفاق نے مدعی اور مدعا علیہ دونوں کا کردار نبھایا وفاق اور اس کی قانونی ٹیم سے کوئی بعید بھی نہیں کی جاسکتی۔ ان خیالات کا اظہار معروف قانون دان اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر سید قلب حسن، سابق وائس چئیرمین پاکستان بار کونسل امجد شاہ اور شعیب شاہین ایڈوکیٹ نے آن لائن خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ سہر قلب حسن کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 6کے اس مقدمے میں وفاق کا کردار قابل مواخذہ رہا ہے۔ جس پر ان کی رائے کے مطابق ڈسپلنری ایکشن لیاجانا چاہیے کیونکہ ایک ہی پارٹی ایک ہی کیس میں مدعی اور مدعا علیہ دونوں کردار کیسے نبھا سکتی ہے۔ مجوزہ معاملے میں ان چبمبر سماعت کی اجازت مل سکتی تھی جیسے کہ ایک دور میں بے نظیر کو ملی۔ شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ وفاق بطور فریق سپریم کورٹ سے رجوع کرسکتا۔ سپریم کورٹ اگر کسی موقع پر لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ موخر کردے تو وفاق اگلے مرحلے میں اعلی عدالت سے رجوع کرسکتا ہے۔ سابق وائس چئیرمین پاکستان بار کونسل نے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عام حالات میں جب ایک عدالت نے پٹیشنر کے حق میں فیصلہ سنادیا تو پٹیشنر اعلیٰ عدالت سے رجوع نہیں کر سکتا۔ وفاق اگر لاہور ہائیکورٹ جانے سے پہلے اگر سپریم کورٹ سے رجوع کرتا تو بہتر تھا۔ لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کرکے انہوں نے خود معزز عدالت کے وقار پر سوال اٹھادئیے ہیں۔