اسلام آباد (این این آئی) پاکستان پیپلزپارٹی نے نیب آرڈیننس کو مدرآف این آر او قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جب آصف علی زرداری نے کہا نیب اور میعشت ایک ساتھ نہیں چل سکتے تو کہا گیا کہ ہم این آر او مانگتے ہیں، آج نیب آرڈیننس لاکر حکومت نے اپنے ساتھیوں کو این آر او پلس دیدیا ہے، یوٹرن کی حد ہو گئی، عمران خان کا فائنل یوٹرن نزیدیک ہے یہ ان کی سیاست کا آخری یوٹرن ہوگا، جب سلیکٹڈ کی ضرورت ختم ہو جاتی ہے تو انہیں یوٹرن دیدیا جاتا ہے،
نیب عدلیہ، فوج بیورویسی اور حکمرانوں کا احتساب نہیں کر سکتی، صرف دو اپوزیشن جماعتوں کا ہی احتساب ہو گا، راولپنڈی کی پولیس نے بہت اچھی سیکیورٹی فراہم کی اس پر ہم ان کے شکرگزار ہیں، لیکن جو پیپلزپارٹی کے کارکنوں پر ایف آئی آر درج کی گئی ہے، اس کو فوری طور پر خارج کیا جائے، حکومت لیاقت باغ میں جلسے میں جتنی رکاوٹیں ڈال سکتی تھی ڈالی اور ہمارا سیاسی عمل جاری رکھنے کیلئے ہائیکورٹ کا سہرا لینا پڑا۔ ان خیالات کا اظہار قمر زمان کائرہ، مصطفی کھوکھر، چوہدری منظور، نذیر ڈھوکی و دیگر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ قمر زمان کائرہ نے کہا کہ جب پیپلزپارٹی میدان میں آئی تو اسے آمروں کو بھی چلتا کیا اور مجھے یقین ہے کہ پیپلزپارٹی کے کارکن حوصلے اور جذبے کیساتھ میدان میں نکل رہے ہیں، اور کینٹینر دینے کے دعوے کرتے تھے انہوں نے ہمارے جلسے مین رکاوٹیں ڈالنے کی بڑی کوششیں کیں، کبھی ہمیں اجازت دینے کیلئے تاخیری حربے استعمال کیے تو کبھی کہا کہ ہمیں یہ سیکیورتی انتظامات کا ٹائم نہیں ہے اور مصطفیٰ کھوکھر اس حوالے سے مجھے بار بار کہہ رہے تھے کہ حکومت اجازت دینے میں تاخیر کر رہی ہے مگر اس باوجود ہم نے جلسہ کیا اور جلسے کرنے کیلئے ہمیں عدالتوں کا سہارا لینا پڑا اور یہی وجہ ہے کہ ہم حکومت کو فاشسٹ کہتے ہیں اگر حکمران خود جلسے کریں تو ٹھیک ہے مگر مخالف جماعتوں کو طعنے مارتے ہوئے ان کی زبانیں نہیں تھکتی، انہوں نے کہا کہ ہم عدالت کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جس نے ہمیں راولپنڈی جلسے کرنے کی اجازت دی۔
پیپلزپاٹی نے راولپنڈی سے جو فیز شروع کیا ہے یہ کامیاب رہا ہے چیئرمین تمام صوبوں کا دوران کریں گے ذوالفقار علی بھٹو کے برسی سے پہلے چیئیرمین پنجاب کے 8اضلاع کا دورا کریں گے اور یہ سلسلہ برسی کے بعد بھی جاری رہے گا، انہوں نے کہا کہ راولپنڈی انتظامیہ نے اچھے انتظامات کیے، سیکیورٹی کے بھی اچھے انتظامات تھے جس کی ہم تعریف کرتے ہیں، پولیس نے بڑے اچھے طریقے سے معاملے کو سنبھالہ کیونکہ یہ بڑا جلسہ تھا جس میں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا،
لیکن ایک افسوسناک بات یہ ہے کہ ایک منفی سیاسی عمل پھر شروع کر دیا گیا ہے کچھ لوگ جو خالی الزہن ہیں کہتے ہیں کہ جلسے میں کرسیاں خالی تھیں جس پر میں ان کو یہ جواب دیتا ہوں کہ خالی دماغوں کو خالی کرسیاں ہی نظر آئیں گی اور اگر پھر بھی وہ یہی کہتے ہیں تو وہ ان کی دماغی صحت کا علاج ہمارے پاس تو نہیں ہے وہ پاکستان کے عوام کے پاس ہے، انہوں نے کہا کہ ہمارے کارکنوں پر ایف آئی آر درج کی گئی ہے کہ انہوں نے کسی ملکی ادارے کے خلاف نعرے بازی کی ہے جو افسوسناک بات ہے،
جلسوں کے اندر نعرے لگتے ہیں، ہمیں تو جلسوں میں یہ لوگ گالیاں دیتے رہے مگر ہم برداشت کرتے رہے، انہوں نے کہا کہ میں انتظامیہ سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ کسی کے سیاسی آلہ کار نہ بنے اور ایف آئی آر فوری واپس لے، جلسے مین نوجوان جذباتی ہو کر نعرے بازی کرتے ہیں یہ کوئی بڑی بات نہیں، قمر زمان کائرہ نے کہا کہ حکومت کی گھبراہٹ صاف نظر آرہی ہے اور اس کی گھبراہٹ کا عالم یہ ہے کہ جب آصف زرداری نے آن دی پارلیمنٹ میں کہا کہ نیب اور معشیت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتی تو بڑی ہم پر تنقید کی گئی
اور کہا گیا کہ یہ این آر او مانگتے ہیں اور گالی گلوچ شروع ہو گئی اور آج اپنے ساتھیوں کو بچانے کیلئے نیب آرڈیننس لایا گیا ہے تاکہ ملم جبہ یابی آرٹی کا کیس کونہ کھولا جائے، اپوزیشن کے خلاف کیس عدالتوں میں گئے ہیں تو ان کی ضمانتیں ہوئی ہیں جو حکومت کو اچھی نہیں لگ رہی، لیکن میرا سوال ہے کہ نیب فوج، عدلیہ، حکومت اور حکمران اتحاد کا احتساب کیوں نہیں کرتی؟نیب صرف اپوزیشن کی دو جماعتوں کا ہی احتساب کر سکتی ہے، اور اب ان جماعتوں کے گردپھر گھیرا تنگ کریں گی، وزیراعظم نے کہا کہ مجھے مزاحمت کا سامنا ہے تو میں پوچھتا ہوں کہ کون مزاحمت کر رہا ہے؟ اس کی وضاحت کریں، وہ کس طرف اشارہ کر رہے ہیں؟ اس میں خان صاحب کی مزاحمت ان کے ٹوٹتے ہوئے ارادے ہیں، انہوں نے کہا کہ اب ملک میں مہنگائی، بے روزگاری معیشت کی تباہی اور ناکام خارجہ پالیسی کا سونا می آگیا ہے اور لگتا ہے کہ اب فائنل یوٹرن نزدیک ہے،
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے پارلیمنٹ کو بند کر دیا ہے اور جب ہم کہتے تھے کہ قانون سازی کرو تو وہ پارلیمنٹ نہیں آتے تھے اور اب ایک ایوان صدر سے آرڈیننس کی فیکٹری چالو کر دی گئی ہے، جہاں سے روز ایک نیا آرڈینس آتا ہے، انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے ہمیشہ بحرانوں کا سامنا کیا اور ملک کو ان بحرانوں سے نکالہ اور بلاول بھٹو بھی ملک کو بحرانوں سے نکالنے کیلئے آگئے ہیں، اور اب عمران خان وہ سب سے بڑا یوٹرن لینے والے ہیں جس سے وہ سیاست میں آئے تھے اور اب واپس یوٹرن لینے والے ہیں، یہ ان کی سیاست کا آخری یوٹرن ہوگا، ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم نے دہشتگردی کو ختم کیا، مزدوروں اور کسانوں، عوام کو ریلیف دیا اور عملاً کام کیا کوئی صرف نعرے نہیں لگائے، ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ آرڈیننس کا جائزہ لے رہے ہیں مگر یہ کام پارلیمنٹ کا ہے ہمارے اوپر تو پہلے کیسز چل رہے ہیں ہمیں اس کا کوئی فائدہ نہیں یہ صرف حکومت نے اپنے دوستوں کو بچانے کیلئے لایا گیا ہے، تاہم اس آرڈیننس پر پارلیمانی پارٹی بیٹھے گی جس کے بعد اپوزیشن اپنا واضح موقف دے گی۔