اسلام آباد (این این آئی)مذہبی سکالر ،معروف عالم دین حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے کہاہے کہ چین کے ایغور مسلمانوں بارے تشویشناک خبریں آرہی ہیں ،حکومت پاکستان چین میں اپنے اثرورسوخ کو استعمال کر کے مسلمانوں کوانصاف دلائے ۔ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں مفتی محمد تقی عثمانی نے کہاکہ چین کےایغورمسلمانوں کے بارے میں تشویشناک خبریں آرہی ہیں ۔انہوںنے کہاکہ
حکومت پاکستان کا فرض ہے کہ وہ انکی تحقیق کرے اور چین میں اپنے اثر ورسوخ کو استعمال کرکے مسلمانوں کو انصاف دلائے ۔ انہوںنے کہاکہ حدیث میں ہے کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے وہ کسی مسلمان کو بے یارومددگار نہیں چھوڑتا۔ دریں اثناء مولانا زاہدالراشدی نے کہاکہ چین کے مغربی صوبہ سنکیانگ میںوہاں مسلمانوں کے ساتھ معاملات بہت پریشان کن اور اضطراب انگیز ہیں کہ وہ ریاستی جبر کا شکار ہیں، انہیں مذہبی آزادی بلکہ شہری آزادیاں بھی حاصل نہیں ہیں۔انہوںنے کہاکہ اقوام متحدہ کی نسلی تعصب کی کمیٹی کی باقاعدہ رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ تقریباً دس لاکھ مسلمان حراستی کیمپوں میں ہیں جو اپنے مذہبی اور شہری حقوق سے محروم ہیں اور ان کے ساتھ ریاستی جبر کا معاملہ کیا جا رہا ہے، اس پر ترکی کے وزیر خارجہ کا یہ احتجاج بھی سامنے آیا ہے کہ یہ صورتحال افسوسناک اور شرمناک ہے اور انہوں نے چین کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ریاستی جبر کو ختم کیا جائے اور وہاں کے دس لاکھ مسلمان جو حراستی کیمپوں میں ہیں انہیں آزاد کر کے ان کے انسانی حقوق بحال کیے جائیں۔ انہوںنے کہاکہ میں یہ نہیں کہتا کہ چین کے ساتھ کوئی مخاصمت مول لی جائے، چین ہمارا دوست ملک ہے، ہر موقع پر اس نے ہمارا ساتھ دیا ہے اور ہم پاک چین دوستی کا احترام کرتے ہیں البتہ دوستانہ ماحول میں چین کے ساتھ بات کی جا سکتی ہے اور کی جانی چاہیے۔ ایک اس حوالہ سے کہ وہ ہمارا پڑوسی ملک ہے، دوسرا مسلمان ہونے کے حوالے سے تو اس سے کہیں زیادہ، اور انسانی حقوق کی بحالی کے حوالے سے بھی، چنانچہ ہماری تہری ذمہ داری بنتی ہے۔ میں چین کے
ساتھ کسی مورچہ بندی کی بات نہیں کر رہا لیکن ایک دوست کے ساتھ دوستانہ ماحول میں ذرا مضبوط لہجے میں بات کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور یہ ہماری دینی ذمہ داری بھی ہے، علاقائی ذمہ داری بھی ہے اور انسانی ذمہ داری بھی ہے۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو، ریاستی اداروں کو، حکومت پاکستان کو، بالخصوص اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور دنیا بھر کی
مسلم حکومتوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس مسئلہ کا نوٹس لیں اور اس میں اپنا کردار ادا کریں۔ انہوںنے کہاکہ ہم چین کے ساتھ ایک معاشی منصوبہ ’’سی پیک‘‘ کو آگے بڑھا رہے ہیں اور مستقبل میں اس اشتراک عمل میں اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے، اللہ کرے کہ ہم اسے مثبت انداز میں آگے بڑھا سکیں۔ لیکن میں دانشوروں کے سامنے یہ سوال پیش کرنا چاہوں گا کہ کیا سنکیانگ کے مسلمانوں کا معاملہ ہمارے
مستقبل کا آئینہ تو نہیں بن جائیگا؟ میں یہ بات چین کی عوام دوست حکومت سے بھی کہنا چاہوں گا کہ اس معاشی منصوبہ میں ہمارے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے ہمیں یہ منظر نہ دکھایا جائے کہ چین کے صوبہ اور ہمارے پڑوس میں رہنے والے مسلمانوں کے ساتھ کیا معاملہ ہو رہا ہے اور میں اپنے پاکستانی دوستوں سے بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ ہم سی پیک کو دوستانہ دائرے میں دیکھ رہے ہیں، کہیں خدانخواستہ یہ ہمارے لیے ایک نئی ایسٹ انڈیا کمپنی‘ نہ بن جائے۔