اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)معروف صحافی ہارون الرشید کا’’مجنوں کا کوئی دوست فسانہ نگار تھا‘‘میں کہنا ہے کہ پہلے تو آہ و بکا سنائی دی اب وضاحتوں کا سلسلہ جاری ہے۔یہ کہ کاروباریوں نے آرمی چیف سے حکومت کی شکایت نہیں کی،اگر ایسا نہیں تھا تو اس کی فوراََ تردید کیوں نہیں کی گئی۔
سچائی شاید بیچ میں پڑی سسک رہی ہے۔تجاویز پیش کیں۔بعض باتوں مثلا شناختی کارڈ کی شرط پہ روہانسے بھی ہوئے۔مگر ایسا بھی نہیں کہ احتجاج کیلئے بہت بلند ہو۔ تھیوری یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن کو اسٹیبلشمنٹ تھپکی دے رہی ہے۔دلیل یہ ہے کہ احتساب عدالت پر دونوں کا اندازِ فکر مختلف ہے۔ان لوگوں کے بقول اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ زرداری اور نواز شریف سے ’’ کچھ لو اور دو ‘‘ کی بنیاد پر معاملہ طے کر لیا جائے گا۔دونوں بلکہ تینوں یعنی مریم نواز بھی مقررہ مدت کے لیے ملک سے باہر چلی جائیں۔ملک میں سکون اور قرار ہو۔بے یقینی کا خاتمہ ہو جائے۔بے چینی تحلیل ہو اور معیشت کا پہیہ ، قدرے زیادہ تیزی سے حرکت کرنے لگے۔ہارون الرشید مزید لکھتے ہیں کہ سوال یہ ہے کہ زیادہ عزم کے ساتھ بروئے کار تو مولانا فضل الرحمن ہیں۔پیپلز پارٹی الگ کھڑی ہے اور نون لیگ منقسم۔شہاز شریف کا اندازفکر دوسرا ہے۔ان کا احساس یہ ہے کہ پنجاب اسمبلی میں ن لیگ کی زیادہ نشستیں تھیں۔سودا ہو جائے تو آزاد ارکان ن لیگ کی طرف لپک سکتے ہیں۔سب سے بڑے صوبے میں تب حکومت وہ تشکیل دے سکتے ہیں۔اگر شہباز شریف اس کے نگران ہوں تو اسٹیبلشمنٹ کو کبھی کوئی پریشانی لاحق نہ ہو گی۔وفا شعار ہیں اورخدمت گزار بھی ہیں۔