اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)مولانا فضل الرحمان نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ آج کل پاکستان کے میڈیا میں جنرل اسمبلی میں عمران خان کی تقریر کا بڑا چرچا ہے اور اس کو ایک بڑی اچھی تقریر قرار دیا جا رہاہے، لیکن میں ایک بات بڑی وضاحت کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں، تقریر اچھی ہو یا بری، لیکن دھاندلی زدہ انتخابات کے نتیجے میں عمران خان کی حق حکمرانی کو جواز فراہم نہیں کر سکتی، ہمارا پچیس جولائی 2018ء کے انتخابات کے حوالے سے جو موقف چلا آ رہا ہے
اس میں کوئی تقریر تبدیلی نہیں لا سکتی، اس کو اس سیاسی پہلو کے ساتھ بھی ہمیں دیکھنا ہے، کشمیر کے حوالے سے جو انہوں نے بات کی ہے، کشمیر کو بیچنے کے جرم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے اور امریکہ اور انڈیا دونوں اس راز سے واقف ہیں، اس تقریر سے پہلے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں قرارداد پیش کرنے کے لیے انہیں سولہ ووٹ مہیا نہیں ہو سکے اور اس تقریب کے بعد قرارداد پیش کرنے کے لیے 16 ووٹ نہیں ہیں، بنیادی بات یہ ہوتی ہے کہ اس سطح پر ایک ریاست کی نمائندگی کرنے والی تقریر کے کچھ نتائج سامنے آنا چاہئیں جبکہ ہوائی باتیں اور خلائی باتیں اس سے پہلے بھی بہت سے حکمران کر چکے ہیں اور ہم اس زمانے میں بھی ان کی تقریروں پر بغلیں بجایا کرتے تھے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس میں کیا ایک ذمہ دار ریاست کی نمائندگی کی ہے کیا اس تقریر کے بعد دنیا پاکستان کو ایک ذمہ دار ریاست کہنے کو تیار ہو سکتی ہے، جس طرح انہوں نے ایٹمی جنگ کی دھمکی دی ہے ایٹمی جنگ کے امکانات کو ظاہر کیا ہے اس کے پاس یہ علم نہیں کہ کبھی بھی تاریخ میں پڑوسی ممالک ایٹمی جنگ کے متحمل رہے ہیں اور نہ ہی کوئی اس کی مثال موجود ہے، عمران خان کی تقریر نے پاکستان کی مشکلات بڑھادی ہیں جس طرح انہوں نے ایٹمی جنگ کی دھمکی دی ہے۔ عمران خان نے انڈیا کو دلیل فراہم کردی ہے کہ پاکستان نے پہل کردی ہے۔ جب آپ سفارتی سطح پر ناکام ہوجاتے ہیں تو لوگ دھمکیوں پر اتر آتے ہیں۔ یہ ایک ناکامی سفارت حکمت عملی کی علامت ہے
آپ کشمیر کے لیے حمایت حاصل نہیں کر سکے، اس کے بعد ایسی بات کہنا جس سے پاکستان آنے والے وقت میں مزید پریشانی میں مبتلا ہو سکتا ہے کہاں کا عقلی تقاضا ہے، آپ دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں کہ آ بیل مجھے مار، اس کے علاوہ تو کوئی تعبیر نہیں دی جا سکتی، اسی سے ہماری رائے کو تقویت ملتی ہے کہ عمران خان کو پاکستان پر بین الاقوامی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے مسلط کیا گیا ہے۔ ہم نے اس ملک اور قوم کو بچانا ہے، ہم الیکشن تسلیم نہیں کرتے۔ عمران خان بیرون ملک جاکر ناموس رسالتؐ کی بات کرتے ہیں اور پاکستان میں ناموس رسالت کی مرتکب آسیہ ملعونہ کو رہا بھی کرتے ہیں اور عزت و آبرو کے ساتھ ان کے اپنے پسندیدہ ملک میں بھیجتے ہیں۔ وہاں کچھ کہا جا رہا ہے پاکستان میں کچھ ہو رہا ہے اس اعتبار سے ہمیں اس پورے منظر نامے میں پاکستان پر اس تقریر کے پڑنے والے اثرات کو سامنے رکھ کر حکمت عملی بنانا ہو گی۔