اسلام آباد( آن لائن)جج ارشد مڈیو اسکینڈل کیس ایف آئی اے کے سائبر کرائم و نگ کے تحقیقاتی ٹیم کیلئے درد سر بن کر رہ گیا ہے جبکہ جج ارشد ملک مڈیو کیس روزانہ ڈرامائی صورتحال سے دو چارنظر آتا ہے سات ستمبر کو تحقیقاتی ٹیم نے کیس کے انتہائی اہم ملزمان ناصر جنجوعہ مہر جیلانی اور خرم یوسف کو معصوم قرار دیتے ہوئے عدالت سے رہا کروا دیا جبکہ تحقیقاتی ٹیم نے اخراج رپورٹ میں ملزمان کو کلین چٹ دیتے ہوئے کہا کہ
دوران تفتیش کوئی ثبوت نہیں ملے کہ یہ تینوں ملزمان اس سارے کیس میں ملوث ہوسکتے ہیں۔ ناصر جنجوعہ مہر جیلانی اور خرم یوسف کی عدالت میں ہتھکڑیاں کھلنی تھیں کہ ایک کھلبلی مچ گئی اور ڈی جی ایف آئی اے کو وزیر اعظم ہاؤس طلب کیا گیا جبکہ معتبر ذرائع نے بتایا کہ ڈی جی ایف اے کی سخت ترین سرزنش کی گئی اور کہا گیا کہ کیوں ان ملزمان کو کلین چٹ دی گئی سخت برہمی اور سرزنش کے بعد ڈی جیایف آئی اے واپس آئے اور ڈائریکٹر سائبر کے ساتھ وہی سلوک ہوا جو انکے ساتھ وزیر اعظم ہاؤس میں ہوا جبکہ ڈائریکٹر سائبر افضل بٹ کو اسٹیبلشمنٹڈویژن واپس کرکیپہلیقربانی کردی گئی جبکہ ڈی جی ایف آئی اے مزید زلت و رسوائی سے بچنے کیلئے عمرے پر روانہ ہوگئے جبکہ کیس کی مزید تحقیقات ہال ہی میں تعینات ہونے والے ڈائریکٹر کاوئنٹرٹیرر ازم بابر بخت کے حوالے کردی گئی۔ جبکہ بابر بخت کی ٹیم نے ایف آئی اے کے جج طاہر محمود کے سامنے چالان جمع کروایا اور لکھا کہ تینوں ملزمان ناصر جنجوعہ، مہر جیلانی اور خرم یوسف کواخراج رپورٹ کے ذریعے جس طرح رہا کروایا گیا وہ سراسر غلط غفلت اور لاپرواہی کا نتیجہ تھی لہذا ایف آئی اے کے اس اخراج رپورٹ کے حوالے سے مکمل لاتعلقی اختیارکرتی ہے۔جبکہ ان تینوں ملزمان ناصر جنجوعہ مہر جیلانی اور خرم یوسف کے خلاف تحقیقات جاری رکھی جائیں گی۔ اس کے بعد جج طاہر محمود نے جو فیصلہ دیا وہ انتہائی حیرت انگیز اور دلچسپ ہے۔
قابل عزت جج طاہر محمود نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ مجسٹریٹ ویسٹ ثاقب جواد نے فیصلہ دیتے وقت تینوں ملزمان کو عدالت ہی سے رہا کرتے ہوئیقانون اور دماغ کا استعمال نہیں کیا۔ جلدی اور عجلت میں تینوں ملزمان کو عدالت ہی سے رہا کردیا جبکہ مجسٹریٹ ویسٹ ثاقب جواد کے پاس ان تینوں ملزمان کو رہا کرنے کیلئے کوئی قانونی جواز موجود نہیں تھا۔ جج طاہر محمود نے لکھا کہ ایف آئی اے کی تحقیقاٰتی ٹیم نے جو رپورٹ پیش کی وہ بناوٹی، غیر موثر اور بے ایمانی پر مبنی تھی جس کی وجہ سے تینوں ملزمان رہا ہوگئے۔
طاہر محمود نے اپنے فیصلے میں مزید لکھا ہے کہ ڈائریکٹرلیگل ایف آئی اے کلیم اللہ تاڑر اسسٹنٹ ڈائریکٹر فاروق لطیف اور تحقیقاتی افسر فضلمعبود کے خلاف محکمانہ کاروائی کی جائے جبکہ مجسٹریٹ ویسٹ ثاقب جواد نے کیس کے اوپر آنکھیں بند کرکے فیصلہ دیاجو سرا سر غلط تھا لہذا انکے خلاف بھی قانونی کاروائی کی جائے۔ ناصر جنجوعہ مہر جیلانی اور خرم یوسف کی رہائی کی سب سے پہلی قربانی ڈٓائیکٹر سائبر افضل بٹ کو دینی پڑی جن کو ایف آئی اے سے واپس کردیا گیا جبکہ ڈی جی ایف آئی اے کو آج قربان کرتے ہوئے پندرہ دنوں کی جبری رخصت پر بھیجا گیا ہے
لیکن انتہائی معتبر ذرائع نے بتایا کہ انکو مکمل طور پر ہٹایا جارہا تھا لیکن آخر میں انکی ایک سفارش کام آگئی جس کی وجہ سے انہیں جبری رخصت پر بھیج دیا گیا ہے جبکہ اس کیس میں آج ذرائع نے مزید انکشاف کیا کہ مریم نواز کو بھی شامل تفتیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے قابل عزت جج طاہر محمود کی طرف سے دئیے گئے فیصلے کو قانونی ماہرین کس نظر سے دیکھتے ہیں یہ جاننے کیلئے ہم نے چند قانونی ماہرین سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ تحقیقاتی ٹیم نے جو رپورٹ ثاقب جواد کے سامنے پیش کی اس کی رو سے ثاقب جواد کے پاس کوئی آپشن نہیں تھا کہ انہیں وہیں پر رہا نہ کیا جاتا لہذا ثاقب جواد کو اس طرح کہنا کہ انہوں نے عجلت میں اور بغیر کسی قانونی جواز کے فیصلہ دیا
او ر ملزمان کو رہا کیا ثاقب جواد کے ساتھ زیادتی ہوگی ماہرین نے بتایا کہ ثاقب جواد کی جگہ کوئی بھی جج ہوتے تو وہی ہونا تھا جو ثاقب جواد نے کیا ہے۔ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے سابق ڈائریکٹر سائبر اور ارشد ملک کیس کی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ افضل بٹ سے جب پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ پانچ دن تک ریمانڈ پر رکھ کرناصر جنجوعہ مہر جیلانی اور خرم یوسف سے تفتیش کی گئی لیکن پانچ دن تک ہمیں کسی بھی قسم کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ یہ لوگ بھی ملوث تھے لہذا تحقیقاتی ٹیم نے بالکل میرٹ اور ناکافی شواہد کی بنیاد پر اخراج رپورٹ تیار کی اورپیش کی تینوں ملزمان کو عدالت سے رہا کروادیا۔ اس حوالے سے بات کرنے کیلئے ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن سے بار بارکوشش کی گئی لیکن انہوں نے فون نہیں اٹھایا۔