منگل‬‮ ، 07 جنوری‬‮ 2025 

6 نکات پر عملدرآمد کیلئے حکومت کو آخری ڈیڈ لائن،ہم چلتی گاڑی کے مسافر نہیں بننا چاہتے، سردار اختر جان مینگل نے حیرت انگیز اعلان کر دیا

datetime 26  ستمبر‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کوئٹہ(آن لائن)بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ رکن قومی اسمبلی سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ چھ نکات پر عملدرآمد کیلئے حکومت کو تین ماہ کی آخری ڈیٹ لائن دے سکتے ہیں اگر سنجیدگی کامظاہرہ نہ کیاگیا توفیصلے میں آزاد ہیں سودے بازی کاالزام سیاسی شکست خوردہ لوگ لگارہے ہیں اگر میرے چارووٹوں سے بلوچستان کے 400گھرانوں میں خوشی آتی ہے تویہ گھاٹے کا سودا نہیں اب تک بلوچستان کے 90فیصد مسائل جوں کے توں ہیں جس سے میں خودمطمئن نہیں تو

اہل بلوچستان کو کیا مطمئن کروں گا اپوزیشن جماعتیں ہمارے مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے یہ یقین دہانی کرائیں کہ اقتدار کے آنے کے بعدوہ بلوچستان کو دریائے نیل میں نہیں پھینکیں گے ہم چلتی گاڑی کے مسافر نہیں بننا چاہتے بلوچستان کا موسم اسلام آباد سے بدلتا ہے حکومت بنانے یا گرانے کی سیاست کبھی نہیں کی جوبھی بلوچستان کو اہمیت دے گا ہم اسے اہمیت دینگے ان خیالات کااظہارانہوں نے نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کے دوران کیا انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے ہم سے جو معاہدے کئے ان پر مکمل عملدرآمد تو نہیں ہوا تاہم اس طرزپرکام بھی نہیں ہوا جس کی ہمیں امید تھی بلوچستان میں لاپتہ افراد کامسئلہ تاحال حل طلب ہے اور اس کے لئے بہت بے چینی پائی جاتی ہے اس مسئلے کی ذمہ داری صرف موجودہ حکومت پر ہی نہیں بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ(ن)کی حکومتیں بھی اس کے ذمہ دار ہیں موجودہ حکومت نے ترقیاتی منصوبوں،بے روزگارکے خاتمے،بلوچستان میں پانی کے مسائل کے حل،ڈیمز کی تعمیر کے حوالے سے جومعاہدے کئے تھے اس پر صرف5 سے 10ہی عملدرآمد ہوا ہے ہمیں ایسا محسوس ہورہا ہے کہ یاتو حکومت مطالبات پر عملدرآمد میں سنجیدہ نہیں یاپھر ان کے مصروفیات زیادہ ہیں انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے مسائل کے ادراک کیلئے سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں پرمبنی ایک کمیٹی تشکیل دی جانی تھی جو تاحال نہیں بنائی جاسکی اس کمیٹی نے بلوچستان کا دورہ کرنا تھا اور یہاں موجود مسائل کے حوالے سے مختلف امور کا جائزہ لینا

تھام گر بدقسمتی سے اب تک کمیٹی تشکیل نہیں دی گئی ہم نے حکومت کی جانب سے مطالبات پرعملدرآمد میں سست روی کامعاملہ پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے سامنے بھی رکھا ہے جس میں سینٹرل کمیٹی نے ناراضگی کااظہار کیا ہے اور یہ فیصلہ کیا ہے کہ ایک بار پھر حکومت سے دو ٹوک الفاظ میں بات کی جائے اور مطالبات پرعملدرآمد کیلئے زور ڈا لاجائے تاہم اب تک کی جو صورتحال ہے اس میں میں خود بھی مطمئن نہیں تو اپنے لوگوں اور اہل بلوچستان کو کیس مطمئن کرسکتا ہوں

انہوں نے کہا کہ ہم پر سودے بازی کا جو الزام لگایا جارہا ہے اس کی سیاسی الزام سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں ہم نے حکومت کو سپورٹ کرتے ہی چھ نکات حکومت کے سامنے رکھے تھے اگر ان چھ نکات کوسودے بازی کہتا ہے تو ہمیں یہ سر بچشم قبول ہے تاہم دیکھنا یہ ہوگا کہ ان نکات میں ہمارے ذاتی مفادات کیا تھے ہمارے مطالبات کا مقصد حکومت کو بلوچستان کے مسائل کے حل کیلئے ایک سیاسی راستہ دکھانا ہے اور اس وقت بھی حکومت نے ہمارے اس مطالبات کوبلوچستان کے بنیادی مسائل کے

عکاس قرار دیتے ہوئے تسلیم بھی کیا تھا تا ہم اس پر عملدرآمد میں جو سست روی ہے وہ ہمارے لئے باعث تشویش ہے اور ہمار ا یہ حق بنتا ہے کہ ہم اپنے مطالبات پر عملدرآمد کیلئے حکومت پرزور ڈالیں اور اسی پریشر میں حکومت نے ہماری کچھ باتیں مانی بھی ہیں جنہیں سودے بازی کا نام دیا جارہا ہے اگر ہم چاہتے تو وزارتیں بھی لے سکتے تھے جو ملکی سیاسی کاایک اصول بنادیاگیاہے کہ حکومت کوسپورٹ کرنے کے بدلے میں وزارتیں،نوکریاں،حاصل کی جائیں مگرمیں سمجھتا ہوں کہ

اگر میرے چارووٹوں کے بدلے بلوچستان کے گھرانوں میں خوشیاں آتی ہیں تو یہ سودا کسی صورت گھاٹے کاسودا نہیں انہوں نے کہا کہ ہمارے مطالبات پاکستان کے آئین اورقانون کے خلاف نہیں ہے حکمران ہمیں بتائیں کہ اگر یہ مطالبات تسلیم نہیں ہوتے تو ہم اس کیلئے کونسا راستہ اختیار کریں در اصل اقتدار میں جو بھی حکومت آئی ہے اس نے روز اول سے بلوچستان کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں رکھا اگر حکمران بلوچستان کو اہمیت دیتے تو آج ہمیں انہیں یہ احساس دلانے کی ضرورت ناپڑتی انہوں نے کہا کہ

سی پیک کے معاملے پر تو آل پارٹیز کانفرنس بلا لی جاتی ہے مگر سی پیک کی بنیاد جس سرزمین پر ہے اس کے مسائل پر بات تک نہیں کی جاتی در اصل بلوچستان کو ایک کالونی کی حیثیت دی جاتی رہی جس کے باعث آج مسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں انہوں نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ رابطے میں ہیں تاہم ہم سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن جماعتوں کو بھی ہمیں یہ یقین دلا ناہوگاکہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد حسب ماضی بلوچستان کے مسائل کو دریا ئے نیل کی نظر نہیں کرینگے اور

اگرانکی روش یہی رہی تو ہمیں دریا ئے نیل میں خون بہانے کاکوئی شوق نہیں ہم کسی صورت بھی چلتی گاڑی کے مسافر نہیں بننا چاہتے انہوں نے کہا کہ حکومت بنانے یاگرانے کی سیاست ہمارا منشور نہیں جوبھی حکومت بلوچستان کو ترجیحات میں شامل رکھے گی ہم اس کا ساتھ دینگے انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کو یہ کریڈیٹ تو دیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے ہمارے مطالبات تو تسلیم کئے ماضی کی حکومتیں تو ان مسائل کوردی کی ٹوکری کی نظر کرتی رہی تاہم اب بھی ہم حکومت کوتین ماہ کی ڈیڈھ لائن دے سکتے ہیں انہیں یہ فیصلہ کرناہوگا کہ ہمارے مطالبات پر من وعن عملدرآمد کیاجائے۔



کالم



صفحہ نمبر 328


باب وڈورڈ دنیا کا مشہور رپورٹر اور مصنف ہے‘ باب…

آہ غرناطہ

غرناطہ انتہائی مصروف سیاحتی شہر ہے‘صرف الحمراء…

غرناطہ میں کرسمس

ہماری 24دسمبر کی صبح سپین کے شہر مالگا کے لیے فلائیٹ…

پیرس کی کرسمس

دنیا کے 21 شہروں میں کرسمس کی تقریبات شان دار طریقے…

صدقہ

وہ 75 سال کے ’’ بابے ‘‘ تھے‘ ان کے 80 فیصد دانت…

کرسمس

رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…