پشاور( آن لائن )خیبرپختونخوا حکومت نے پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے ضلعی سطح پر چائلڈ پروٹیکشن عدالتیں قائم کرنے کی تجویز مسترد کردی۔ ہائی کورٹ کے رجسٹرار خواجہ وجیہہ الدین نے ایک پریس بریفنگ میں بتایا کہ پاکستان اقوامِ متحدہ کے کنوینشن برائے حقوق اطفال کا پر دستخط کنندہ ہے۔
جس کے تحت بچوں کی بہتری کے لیے متعدد اقدامات کیے گئے۔اس مقصد کے لیے ہائی کورٹ نے 2 مرتبہ صوبائی حکومت سے ضلعہ سطح پر چائلڈ پروٹیکشن عدالتیں قائم کرنے کی درخواست کی لیکن اسے مسترد کردیا گیا۔رجسٹرار کا مزید کہنا تھا کہ پشاور میں چائلڈ پروٹیکشن عدالت کے کامیابی سے کام کرنے بعد ہائی کورٹ نے مردان اور ایبٹ آباد میں 2 عدالتیں قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا جو رواں ماہ فعال ہوجاتیں۔نہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ نے مجوزہ خیبرپختونخوا جوڈیشل سروس ایکٹ پر محکمہ خزانہ کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات کا بھی باضابطہ جواب دے دیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ مجوزہ قانون نومبر 2018 میں منظوری اور قانون سازی کے لیے حکومت کو بھجوایا گیا تھا جس کا مقصد ضلعہ عدلیہ کو حکومت سے مکمل طورپر علیحدہ کرنا اور اس میں عدالتی عملے کے لیے ایک سروس اسٹرکچر کی بھی تجویز دی گئی تھی۔تاہم حکومت نے 8 ماہ بعد بارہا یاد دہانی کے نوٹسز ارسال کرنے پر اعتراضات لگا کر اسے واپس کردیا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ آئین آزاد عدلیہ کی ضمانت فراہم کرتا ہے اور مجوزہ قانون کا مقصد بھی یہی تھا جو ہائی کورٹ میں ضلعی عدالتوں کو قانونی جواز فراہم کرتا۔رجسٹرار پشاور ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ ضلعی عدالتوں کو سب سے بڑا چیلنج قبائلی اضلاع کا خیبرپختونخوا میں انضمام ہے جس کی وجہ سے انسانی اور مالی وسائل پر دبا بڑھا ہے اور ضلعی عدلیہ کی کارکردگی بھی متاثر ہوئی۔ہائی کورٹ کی کارکردگی سے آگاہ سے کرتے ہوئے رجسٹرار نے بتایا کہ 3 سہہ ماہی کے دوران زیر التوا کیسز کی مجموعی تعداد 37 ہزار 952 سے کم ہو کر 36 ہزار 459 ہوئی ہے۔جس میں 24 ہزار 734 کیسز نئے دائر کیے گئے جبکہ 25 ہزار 938 کیسز ختم کردیے گئے۔