اسلام آباد (این این آئی) سپریم کورٹ آف پاکستان نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو سے متعلق تفصیلی فیصلہ میں پانچ سوال کرتے ہوئے کہاہے کہ کیا ویڈیو مستند ہے؟ اگر ویڈیو مستند ہے تو اسے کس فورم پر کیسے ثابت کیا جائے؟ ویڈیو کے نواز شریف کے کیس پر کیا اثرات ہوں گے؟ ویڈیو کے جج کے مستقبل پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ جج ارشد ملک کے رویے کو کس فورم پر دیکھا جائے گا؟،
جج ارشد ملک کی 7 جولائی کی پریس ریلیز اور 11 جولائی کا بیان حلفی ان کے خلاف فرد جرم ہے، ویڈیو مستند شہادت ثابت ہونے کی صورت میں اسلام آباد ہائی کورٹ یا نواز شریف سمیت فریقین اسے اضافی شہادت کے طور پر لا سکتے ہیں، 428 سی آر پی سی کے قانون کے تحت اس ویڈیو کو شہادت کے طور پر لایا جا سکتا ہے،معاملے کی تحقیقات پر حکومت یا عدالت کی طرف سے کسی کمیشن کے قیام کی رائے کا کوئی فائدہ نہیں،اسلام آباد ہائی کورٹ شہادتیں یا ٹرائل جج کے کنڈکٹ کے متاثر نہ ہونے کا فیصلہ کریگی، اسلام آباد ہائی کورٹ کا اختیار ہے کہ وہ شہادتوں کا دوبارہ خود جائزہ لے، اپیلوں کو میرٹ پر دستیاب شہادتوں سے فیصلہ کرے،جج کے کنڈکٹ سے ملک کے ہزاروں ایماندار اپ رائٹ اور شفاف ججوں کے سرشرم سے جھک گئے ہیں، امید ہے ارشد ملک کو ان کے اصل محکمے میں بھیج کر انضباطی کاروائی کا آغاز کیا جائے گا۔تفصیلات کے مطابق جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو سے متعلق کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ نے 20 اگست کو محفوظ کیا تھا۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی اور جمعہ کو چیف جسٹس آف پاکستان نے کیس کا فیصلہ سنایا۔25 صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تحریر کیا ہے جسے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر بھی جاری کر دیا گیا جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس عمر عطا بندیال بھی بینچ کا حصہ تھے۔
فیصلے میں چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ کیس میں 5 اہم سوال تھے۔ پہلا سوال یہ تھا کہ کیا ویڈیو مستند ہے؟ دوسرا سوال یہ تھا کہ اگر ویڈیو مستند ہے تو اسے کس فورم پر کیسے ثابت کیا جائے؟ تیسرا سوال یہ تھا کہ ویڈیو کے نواز شریف کے کیس پر کیا اثرات ہوں گے؟ چوتھا سوال یہ تھا کہ ویڈیو کے جج کے مستقبل پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ پانچواں سوال یہ تھا کہ جج ارشد ملک کے رویے کو کس فورم پر دیکھا جائے گا؟۔
سپریم کورٹ کے 25 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ یہ مرحلہ نہیں ہے کہ سپریم کورٹ کورٹ ویڈیو اور اس کے اثرات میں مداخلت کرے، بالخصوص متعلقہ ویڈیو کا تعلق اسلام آباد میں زیر التوا اپیل سے ہے۔فیصلے میں کہا گیا کہ ویڈیو لیکس کے معاملے پر ایف آئی اے نے تفتیش شروع کر دی ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ معاملے کی تحقیقات پر حکومت یا عدالت کی طرف سے کسی کمیشن کے قیام کی رائے کا کوئی فائدہ نہیں۔
فیصلے میں لکھا گیا کہ جج ارشد ملک نے نواز شریف کے خلاف فیصلہ دیا، ارشد ملک لاہور ہائی کورٹ کے ماتحت ہیں جو ڈیپوٹیشن پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے ماتحت احتساب عدالت نمبر 2 میں تعینات ہوئے۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں بتایا گیا کہ عدالت کو آگاہ کیا گیا ہے کہ ارشد ملک کو احتساب عدالت کے جج سے ہٹا کر او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے۔ ارشد ملک کو اب تک لاہور ہائی کورٹ نہیں بھجوایا گیا ہے اس لیے محکمانہ کارروائی کا ابھی آغاز نہیں ہوا۔فیصلے میں کہا گیا کہ
جج ارشد ملک کی 7 جولائی کی پریس ریلیز اور 11 جولائی کا بیان حلفی ان کے خلاف فرد جرم ہے۔عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ ویڈیو مستند شہادت ثابت ہونے کی صورت میں اسلام آباد ہائی کورٹ یا نواز شریف سمیت فریقین اسے اضافی شہادت کے طور پر لا سکتے ہیں، 428 سی آر پی سی کے قانون کے تحت اس ویڈیو کو شہادت کے طور پر لایا جا سکتا ہے۔فیصلے میں کہا گیا کہ جج کے کنڈکٹ کے قابل اعتراض ہونے کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کرنا ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ شہادتیں یا ٹرائل جج کے کنڈکٹ کے متاثر نہ ہونے کا فیصلہ کریگی،
اسلام آباد ہائی کورٹ کا اختیار ہے کہ وہ شہادتوں کا دوبارہ خود جائزہ لے، اپیلوں کو میرٹ پر دستیاب شہادتوں سے فیصلہ کرے۔چیف جسٹس کے تحریر کردہ فیصلے میں لکھا گیا کہ کنڈکٹ متاثر ہونے کی صورت میں اسلام آباد ہائیکورٹ فریقین کے دلائل سننے کے بعد دوبارہ ٹرائل کے لیے فاضل عدالت کو بھیج سکتی ہے لیکن ویڈیو اسکینڈل سے متعلق کمیشن بنانے کی آئینی درخواستیں نمٹا دی گئی ہیں۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ ارشد ملک نے بیان حلفی اور پریس ریلیز میں خود تسلیم کیا کہ وہ بلیک میل ہوئے، ارشد ملک ملزم فریق کے ہاتھوں بلیک میل ہوئے،
جج کا تسلیم کرنا ہمارے لیے چونکا دینے کے مترادف ہے۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ جج کے کنڈکٹ سے ملک کے ہزاروں ایماندار اپ رائٹ اور شفاف ججوں کے سرشرم سے جھک گئے ہیں، امید ہے ارشد ملک کو ان کے اصل محکمے میں بھیج کر انضباطی کاروائی کا آغاز کیا جائے گا۔ فیصلے میں کہاگیاکہ آڈیو یا ویڈیو ٹیپ کا عدالت میں پیش کرنے سے پہلے اس کے کچھ لوازمات ہیں۔فیصلہ میں کہاگیاکہ کسی آڈیو یا ویڈیو پر اس وقت تک انحصار نہیں کیا جا سکتا جب تک وہ مستند یا ٹیمپر نہ ہو۔ فیصلہ میں کہاگیاکہ قانون شہادت قانون کے تحت یہ عدالت کا اختیار ہے کہ وہ آڈیو یا ویڈیو کو بطور ثبوت پیش کرنے کا اختیار دے۔
فیصلہ کے مطابق ایسا شخص جو ویڈیو یا آڈیو ریکارڈ کرے اس کو عدالت میں پیش کرنا ضروری ہے۔ فیصلہ میں کہاگیاکہ آڈیو یا ویڈیو کو عدالت میں چلایا جانا چاہیے،ایسی آڈیو یابویڈیو عدالت میں پیش کی جائے جو واضع سنی اور دیکھی جا سکے۔فیصلہ میں کہاگیاکہ ایسا شخص جو آڈیو اور ویڈیو ریکارڈ کرے اور جنکی آوازیں آڈیو یا ویڈیو میں موجود ہوں انکی شناخت ضروری ہے۔فیصلہ میں کہاگیاکہ عدالت میں پیش کی گئی آڈیو یا ویڈیو کا سورس بھی بتانا ضروری ہو گا۔ فیصلہ میں کہاگیاکہ کسی آڈیو یا ویڈیو کو عدالتی فورم پر تاخیر سے پیش کرنے کو شک کی نگاہ سے دیکھا جائیگا۔ فیصلہ کے مطابق عدالتی فورم پر کسی آڈیو یا ویڈیو کو پیش کرنے سے پہلے درخواست دینا ضروری ہے۔
یاد رہے کہ 6 جولائی 2019 کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نے پریس کانفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ایک ویڈیو جاری کی جس میں مبینہ طور پر بتایا گیا کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو نواز شریف کو سزا سنانے کے لیے بلیک میل کیا گیا۔ اس بنیاد پر مریم نواز نے یہ مطالبہ کیا کہ چونکہ جج نے خود اعتراف کرلیا ہے لہٰذا نواز شریف کو سنائی جانے والی سزا کو کالعدم قرار دے کر انہیں رہا کیا جائے تاہم جج ارشد ملک نے ویڈیو جاری ہونے کے بعد اگلے روز ایک پریس ریلیز کے ذریعے اپنے اوپرعائد الزامات کی تردید کی اور مریم نواز کی جانب سے دکھائی جانے والی ویڈیو کو جعلی۔ فرضی اور جھوٹی قرار دیا۔
معاملے پر کابینہ اجلاس کے دوران وزیراعظم عمران خان نے مؤقف اپنایا کہ اعلیٰ عدلیہ کو اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے۔ وزیراعظم کے بیان کے بعد جج ارشد ملک کی اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم قام چیف جسٹس عامر فاروق سے ملاقات ہوئی، اس کے بعد قائمقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ سے ملاقات کی ان اہم ملاقاتوں کے بعد 12 جولائی 2019 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائمقام چیف جسٹس عامر فاروق نے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا جس کے بعد وزرات قانون نے ان کو مزید کام سے روکتے ہوئے ان کی خدمات لاہور ہائیکورٹ کو واپس کردیں۔اس دوران جج ارشد ملک کا ایک بیان حلفی بھی منظر عام پر آیا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ نوازشریف کے صاحبزادے حسین نواز نے انہیں رشوت کی پیشکش کی۔جج ارشد ملک نے بیان حلفی میں بتایا کہ وہ مئی 2019 کو خاندان کے ساتھ عمرے پر گئے، یکم جون کو ناصر بٹ سے مسجد نبویؐ کے باہر ملاقات ہوئی، ناصر بٹ نے وڈیو کا حوالہ دے کر بلیک میل کیا۔
بیان حلفی کے مطابق انہیں (ارشد ملک) کو حسین نواز سے ملاقات کرنے پر اصرار کیا گیا جس پر انہوں نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا، حسین نواز نے 50 کروڑ روپے رشوت کی پیشکش کی، پورے خاندان کو یوکے، کینیڈا یا مرضی کے کسی اور ملک میں سیٹل کرانے کا کہا گیا، بچوں کیلئے ملازمت اور انہیں منافع بخش کاروبار کرانے کی بھی پیشکش کی گئی۔ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل کے حوالے سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی جس پر 16 جولائی کو سماعت ہوگی۔ اس حوالے سے تین رکنی بنچ قائم کیا گیا جس کے سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ ہیں جبکہ دیگر ارکان میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس عمر عطاء بندیال شامل ہیں۔خیال رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نمبر2 کے جج ارشد ملک اہم کیسز کی سماعت کررہے تھے جن میں سابق صدر آصف زرداری کے خلاف جعلی اکاؤنٹس کیس، سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور کیس اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے خلاف ریفرنس بھی شامل ہے۔مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نوازشریف کو جج ارشد ملک نے ہی العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی جب کہ فلیگ شپ ریفرنس میں بری کیا تھا۔