اسلام آباد (نیوز ڈیسک) وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہاکہ جج ارشد ملک کا بیان حلفی ایک ہی طرف اشارہ کرتی ہے، اس میں وہی لفظ لکھا ہوا ہے جو پاناما کے فیصلے میں تھا اور وہ لفظ ’مافیا‘ کا تھا۔انہوں نے کہا کہ بیان حلفی کے مطابق جج ارشد ملک سے دو مواقع پر رابطے کیے جاتے ہیں، ایک اس وقت جب نواز شریف کے خلاف کیس چل رہا تھا تو ناصر جنجوعہ، ماہر جیلانی اور ناصر بٹ رابطہ کرتے ہیں، یہ لوگ لالچ اور دھمکیاں بھی دیتے ہیں
جبکہ دوسرا موقع فیصلے کے بعد کا ہے۔معاون خصوصی نے کہا کہ بیان حلفی میں کہا گیا ہے کہ جج کا تقرر بھی اپنے مقاصد کیلئے کروایا جاتا ہے، لہٰذا ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ تقرر کیسا ہوا اور اس میں کون ملوث تھے کیونکہ اس عدالت کیلئے تقرر میں وزیر قانون، سیکریٹری قانون، وزیر اعظم کا دفتر بھی شامل ہوتا ہے۔شہزاد اکبر نے کہا کہ حلفیہ بیان میں جج کہہ رہے ہیں کہ ان کا تقرر کروایا گیا، اس پوری اسکیم کا آغاز تقرر سے ہوتا ہے جس کے بعد انہیں 10 کروڑ روپے رشوت کی پیشکش کی گئی۔انہوں نے بتایا کہ نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس دوسرے جج کو منتقل بھی انہیں کی درخواست پر ہوا تھا کیونکہ یہ کیس پہلے جج محمد بشیر کی عدالت میں تھا لیکن ان پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا تھا، جس کے بعد یہ کیس جج ارشد ملک کی عدالت میں گیا تھا۔معاون خصوصی نے کہا کہ پورا منصوبہ تھا کہ کسی طرح پسند کا فیصلہ لے لیا جائے لیکن جب اپنی مرضی کا فیصلہ نہیں آتا تو بیان حلفی کے مطابق فروری 2019 سے ان سے دوبارہ رابطہ کیا جاتا ہے اور نیا کردار خرم یوسف اس میں شامل ہوتا ہے جبکہ اس کے بعد ایک اور کردار میاں طارق سامنے آتا ہے۔پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ جج کے بیان حلفی کے مطابق میاں طارق کی وجہ سے بلیک میلنگ شروع ہوتی ہے اور جج کو ایک ویڈیو دکھائی جاتی ہے، جس کے بعد وہ بلیک میل ہونا شروع ہوئے، اس کے علاوہ
اس میں شدید الزامات لگائے گئے۔معاون خصوصی نے کہا کہ بیان حلفی میں میاں نواز شریف کا نام لیا گیا ہے کہ ضمانت کے دوران جاتی امرا میں ان کو سزا دینے والے جج نے ان سے ملاقات کی کیونکہ ناصر بٹ جج کو بلیک میل کرکے وہاں لے کر گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ جج ارشد ملک اپنے بیان حلفی میں کہتے ہیں ان کی ملاقات حسین نواز سے کروائی گئی اور انہیں 50 کروڑ روپے اور اہل خانہ کو برطانیہ میں سیٹ کرنے کی پیشکش کرتے ہیں کہتے ہیں کہ آپ کو باہر سے ہی ایک ویڈیو بیان میں
استعفیٰ دینا ہے۔شہزاد اکبر نے کہا کہ نیب کے قانون میں بھی واضح ہے کہ انصاف کی راہ میں رکاوٹ پر سزا ہوسکتی ہے، تاہم اب یہ دیکھنا ہوگا کہ اس پوری اسکیم کے پیچھے کون ہے، کس طرح سے جج کو سازش، دھمکیاں دے کر بلیک میل کیا گیا جبکہ ان ویڈیوز کی بھی تحقیات ہونی چاہئیں۔انہوں نے کہاکہ عدالتی کارروائی پر اثر انداز ہونی کی کوشش کرنے پر تفتیش ہونی چاہیے، مجھے اس (مریم نواز کی) پریس کانفرنس کو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ کچھ لاچار لوگ جو وہاں بیٹھے تھے وہ بھی اس ضمن میں آگئے ہیں کہ کیا 31 اے کا اطلاق ان پر بھی ہوتا ہے۔انہوں نے کہاکہ سیاست تنگ گلی میں جاچکی ہے اور اس کیس کو اب بھی سیاست سے ڈیل کیا جارہا لیکن آخر میں منی ٹریل کا معاملہ ہی سامنے آئے گا۔مسلم لیگ (ن) کے قائد پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ آپ کی بخشش تب تک نہیں ہوسکتی جب تک منی ٹریل نہیں ہے، ٹرائل میں آپ کو سزا ہوچکی ہے، جس پر آپ نے ڈرامہ رچانے کی کوشش کی لیکن اس سزا کا خاتمہ صرف عدلیہ ہی کرسکتی ہے۔