اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)جمعے کا دن پاکستان میں بڑے بڑے کیسز کے فیصلوں سے بہت ہی بھاری دن سمجھا جاتا ہے ، شریف خاندان کیخلاف جتنے کیسز کے فیصلے آئے وہ جمعے کے دن ہی آئےجبکہ احتساب عدالت نے شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کا محفوظ شدہ فیصلہ بھی 6جولائی بروز جمعہ کو سنایا تھا۔لیکن اب کی بار جمعے کا دن احتساب عدالت کے جج ارشد ملک پر بھاری دن ثابت ہوا۔
ن لیگ کی جانب سے لیک کردہ ویڈیو اسکینڈل کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس نے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا۔جس کے بعد ارشد ملک نے اپنے کیسزکی سماعت منسوخ کرتے ہوئے نیب کورٹ چلے گئے ۔ فیصلہ آنے کے بعد لیگی حامیوں نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو اسی دن سزا سنانے والے جج ارشد ملک سے متعلق کہا کہ آج جمعہ کے دن وہ خود عدالت جارہے ہیں ، جبکہ کچھ سوشل میڈیا صارفین نے جج ارشد ملک کو جمعہ مبارک کہہ دیا ۔دووسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے مبینہ طور پر متنازع ویڈیو سامنے آنے کے بعد احتساب عدالت نمبر 2 کے جج ارشد ملک کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کرلیا۔ رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ کے مطابق وزارت قانون کو خط لکھ دیا گیا ہے کہ فاضل جج کی خدمات واپس لی جائیں اور نئے جج کی تعیناتی جلد کی جائے جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے جج ارشد ملک کے خط اور بیان حلفی کو نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیل کے ریکارڈ کا حصہ بنانے کا بھی حکم دیدیا ہے ۔رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ کے مطابق جج کی تقرری اور ہٹانے کیلئے چیف جسٹس ہائیکورٹ کی مشاورت ضروری ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ جج ارشد ملک کو واپس وزارت قانون بھیج رہی ہے، انکوائری ہائیکورٹ نے کرنی ہے یا وزارت نے ؟ فیصلہ وزارت قانون کریگا۔ تفصیلات کے مطابق جمعہ کے روز احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے
اسلام آباد ہائیکورٹ میں خط اور بیانے حلفی جمع کرایا جو کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے رجسٹرار نے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق کے حوالے کیا خط اور بیانے حلفی میں ارشد ملک نے تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے بتایا کہ مجھے بلاوجہ بدنام کیا جارہا ہے اور میرے خلاف پروپیگنڈا ہورہا ہے میرا اس ویڈیو سے کوئی تعلق نہیں ہے ویڈیو کو ایڈٹ کرکر چلایا جارہا ہے ،تاہم کچھ ہی دیر بعد
اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کرلیا اور قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے وزارت قانون کو خط بھی لکھ دیا ہے کہ جج ارشد ملک کی خدمات کو فوری طور پر واپس لی جائیں اور نئے جج کی تعیناتی جلد کی جائے ۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے رجسٹرار کے مطابق جج ارشد ملک کو ڈیپوٹیشن پر احتساب عدالت میں لگایا گیا تھا جج کو تقرری سے ہٹانے کیلئے
وزارت قانون سے مشاورت کی جائے گی کیونکہ جج وزارت قانون کے ماتحت ہوتا ہے اور اسلام آباد براہ راست ارشد ملک کی انکوائری نہیں کرسکتا اب خط کی انکوائری وزارت قانو ن کرے کی یا اسلام آباد ہائیکورٹ اس کا فیصلہ وزارت قانون نے کرنا ہے اور وزارت قانون ہی نئے جج کو تعین کرے گی اور جج ارشد ملک کی خدمات دوبارہ وزارت قانون کے حوالے کی جارہی ہے ۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق کی ہدایت پر رجسٹرار نے وزارت قانون کو خط لکھ کر کہا ہے کہ ارشد ملک کو ڈیپوٹیشن پر احتساب عدالت میں جج لگایا گیا تھا اور ان کی خدمات واپس پنجاب کے حوالے کی جائیں گی۔اس فیصلے سے کچھ دیر قبل جج ارشد ملک نے ویڈیو اسکینڈل پر قائم مقام چیف جسٹس ہائیکورٹ کو خط لکھ کر مریم نواز کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے انہیں بے بنیاد قرار دیا ہے۔
احتساب عدالت اسلام آباد کے جج محمد ارشد ملک نے مبینہ ویڈیو معاملے پر رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ سے ملاقات کی اور عدالت عالیہ کے نام ایک خط ان کے حوالے کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ن لیگ کی مبینہ دھمکیوں اور نواز شریف کے حق میں فیصلہ دینے کیلئے رشوت کی پیشکش کا بھی خط میں تذکرہ کیا ہے۔ ترجمان ہائیکورٹ کے مطابق ہائیکورٹ براہ راست جج ارشد ملک کیخلاف انکوائری نہیں کرسکتی،
جج کی تقرری اور ہٹانے کیلئے چیف جسٹس ہائیکورٹ کی مشاورت ضروری ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ جج ارشد ملک کو واپس وزارت قانون بھیج رہی ہے، انکوائری ہائیکورٹ نے کرنی ہے یا وزارت نے ؟ فیصلہ وزارت قانون کریگا۔یاد رہے کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے دو سے تین مرتبہ طلب بھی کیا تھا اور ان سے اس حوالے سے پوچھ گچھ کی گئی۔
جج ارشد ملک سے ناصر بٹ کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے دوسرے لوگوں سے ملاقات کے حوالے سے پوچھا گیا تھا لیکن وہ قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق کو اپنے جواب سے مطمئن نہیں کرسکے۔واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے مسلم لیگ (ن) نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں مبینہ طور پر یہ بتایا گیا کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو نوازشریف کو سزا سنانے کے لیے بلیک میل کیا گیا تاہم جج ارشد ملک نے ویڈیو جاری ہونے کے بعد ایک پریس ریلیز کے ذریعے اپنے اوپر عائد الزامات کی تردید کی تھی۔