لاہور(این این آئی)پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اپنے پانچ سالہ دور میں لئے گئے قرضوں کے حجم اور ان کے استعمال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے دو ر میں ملک پر 10ہزار ارب کا قرض چڑھا اورقرضہ اور ان کا استعمال حکومتی ریکارڈ کا حصہ ہوتا ہے،اس کیلئے کسی کمیشن کی ضرورت نہیں بلکہ وزیر اعظم وزارت خزانہ سے ایک ٹیلیفون کال پر اسکی تفصیلات حاصل کر سکتے ہیں،بیشک کمیشن بنایا جائے ہم پیش ہوں گے اور حقائق قوم کے سامنے رکھے جائیں، 72سالہ تاریخ میں
پہلی مرتبہ کسی وزیر اعظم نے رات بارہ بجے تقریر کی ہے، ہم تو پہلے ہی وزیر اعظم کی ذہنیت کیفیت کی جانچ کیلئے اعلیٰ سطحی کمیشن کا مطالبہ کر چکے ہیں،نیب سے صرف اپوزیشن کو دبانے اور اس کی آواز بند کرنے کا کام لیا جاہا ہے،جب ملک میں سیاسی جمود ہو، حکومت فیل ہو جائے اور عوام کے مسائل حل نہ ہوں تو ایک ہی جمہوری راستہ انتخابات ہوتا ہے اور اگر ہم ملک سے مخلص ہیں تو یہی وہ راستہ ہے جس پر ہمیں جانا پڑے گا،جس ملک میں ڈیو پراسس نہ ہو جہاں انصاف نہ ہو وہاں جمہوریت نہیں چل سکتی، احتساب کے نام پر جمہوریت اور اپوزیشن کو دبائیں گے تو ملک میں ترقی کیسے ہو گی، آج جمہوریت، معیشت اور سالمیت انڈر تھریٹ ہے،رواں ماہ اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس مین مشترکہ حکمت عملی بنائی جائے گی۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے خواجہ محمد آصف، احسن اقبال، رانا ثنا اللہ، مریم اورنگزیب اور دیگر کے ہمراہ ماڈل ٹاؤن سیکرٹریٹ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ وزیر اعظم کہہ رہے ہیں میں نے اعلیٰ اختیاراتی کمیشن بنانا ہے جس میں آئی ایس آئی، آئی بی، ایف بی آر او ردیگر اداروں کے لوگ ہوں گے جو ماضی میں لئے گئے غیر ملکی قرضوں کے استعمال کا تعین کرے گا حالانکہ وزیر اعظم وزارت خزانہ کو ایک فون کال کریں تو انہیں ساری تفصیلات مل جائیں گی اور سارے حقائق سامنے آ جائیں گے کہ قرض لینے اور
اس کے اخراجات کی حقیقت کیا ہے۔ جس طرح وزیر اعظم بولتے ہیں وہی زبان ان کے وزراء بھی بولتے ہیں جنہیں کوئی عقل او رسمجھ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے دور میں جو 10ہزار ارب روپے قرض چڑھا اس میں ڈی ویلیوایشن کا عمل بھی شامل ہے،اس قرض سے پاکستان میں ترقی ہوئی ہے،صرف نیلم جہلم کے لئے 500ارب روپے خرچ ہوئے، کچھی کینال، موٹر ویز، تربیلا فو ر، کوئلے سے بجلی، گوادر پورٹ کی ترقی، بجلی کے ایفی شنٹ استعداد کے حامل کارخانے،
گیس پائپ لائنیں بلکہ ترقی کا جال بچھا یا گیا،ا سی قرض سے ہم نے اپنا مالی خسارہ کم کیا، اسی سے ضرب عضب لڑی گئی اور ملک سے دہشتگردی کا خاتمہ ہوا، اسی قرض سے پاک افغان سرحد پر باڑ لگائی گئی، نیوکلیئر پاور پروگرام اسی سے شروع ہوا، ہم نے طویل المدت معاہدے کئے، اسی سے دفاع کے نئے پروگرام شروع ہوئے اور یہ سب حکومتی ریکارڈ میں موجود ہے۔ اگر وزیر اعظم کو پڑھنا آتا ہے تو وہ منگوا کر پڑھ لیں، اگر ان کی مرضی ہے کہ کمیشن بنانا ہے تو ہمیں اس میں بھی
کوئی اعتراض نہیں، میں اس میں پیش ہو جاؤں گا اور حقائق سامنے رکھ دوں گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم 10ہزار ارب روپے سے گروتھ ریٹ کو 5.8پر لے کر گئے اور 31مئی 2018ء کو ترقی کی شرح 5.8پر تھی حالانکہ یہ حقیقت میں 6.2فیصد تھی لیکن اسے کم ظاہر کیا گیا، افراط زر 4 فیصد سے کمی تھی او ریہ ہماری پانچ سالوں کی معیشت ہے لیکن موجودہ حکومت کے دس مہینوں کا کیا حال ہے اور بلکہ دو سالوں ں میں کیا حال ہوگا میں آپ کو وہ بھی بتا دیتا ہوں۔ یہ حکومتی ذرائع کی رپورٹس اور
بجٹ کے اعدادوشمار ہیں جو میں آپ کو بتا رہا ہوں۔اگر اس حکومت نے دو سال مکمل کئے تو کم از کم اس ملک پر 10ہزار ارب روپے کے قرض کا اضافہ ہو جائے گا اور اس پر مناظر ہ کرنا ہے تو ہم حاضر ہیں۔ ترقی نہ ہونے کے برابر ہے اور ابھی تک کوئی نئی ڈویلپمنٹ نہیں ہوئی، ہمارے شروع کئے ہوئے منصوبوں کیلئے پیسے نہیں تو پھر پچاس لاکھ گھروں او رایک کروڑ نوکریوں کیلئے کہاں سے پیسے آئیں گے۔ جب یہ منصوبے نہیں ہوں گے تو گروتھ ریٹ 3فیصد کے لگ بھگ رہے گی،
کاروبار میں کمی کی وجہ سے بیروزگار بڑھے گی اور الٹا 20سے 30لاکھ لوگوں کا روزگارختم ہونے کا اندیشہ ہے، اضافی ٹیکسز کے نفاذ سے کاروبار بند ہوں گے اور افراط زر جو آج 9فیصد ہے یہ 12فیصدسے بھی اوپر جائے گا، ترقی کی رفتار آدھی سے بھی کم رہ جائے گی، نواز شریف کی پانچ سالہ دور میں کیا ہوا اور عمران خان کے دور حکومت میں کیا ہوگا قوم کے سامنے ہے اور اس کے لئے کسی کمیشن کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے دور میں 9ہزار ارب صوبوں کو دیا گیا
جو ایک ریکارڈ ہے،5 ہزار ارب روپے سود کی ادائیگی کی مد میں ادا کئے گئے، 3800ارب روپے دفاع پر خرچ کئے گئے اور یہ تمام حقائق حکومتی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ اگر وزیر اعظم کسی سے پوچھ لیتے تو انہیں رات بارہ بجے تقریر کی ضرورت پیش نہ آتی، قوم پریشان ہو گئی کہ پتہ نہیں وزیر اعظم کیا بتانے لگے ہیں،اب تو عوام ہر روز ان کی تقریر کا انتظا ر کرتے ہیں کہ موسم کا کیا حال ہے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان نے دھمکی دی کہ میں سب کا احتساب کروں گا او رکسی کو نہیں چھوڑوں گا۔
عمران خان نے ہاتھ ہلا ہلا کر کہا کہ میرے نیب سے کوئی تعلق نہیں لیکن اس سے پہلے کہا کہ میں گرفتار کراتا ہوں اور میں کر رہا ہوں اور اب وزراء بھی یہی فرما رہے ہیں کہ ہمارا نیب سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ کیوں ہو رہا ہے اورکون کرا رہا ہے اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ ایک وزیر نے ٹی وی پر فرمایا کہ ملک کے مسائل کاحل یہ ہے کہ پانچ ہزا ر لوگوں کو مار دیا، جب وزراء کی سوچ یہ ہو گی پھر ان کی ذہنی کیفیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اسی وزیر نے کہا کہ شاہد خاقان عباسی گرفتار ہواجائیں گے۔
میں موجودہ نیب کے ہاتھوں گرفتاری کو اپنے لئے اعزاز سمجھتا ہوں۔ہم نے مشر ف کی نیب کی جیلیں دیکھی ہیں، ہم نے اس وقت بھی جمہوریت کیلئے قربانی دی آج بھی جمہوریت کیلئے قربانی ینے کے لئے تیا ر ہیں۔ میں عمران خان کی جیلوں سے نہیں گھبراتا، دھمکیاں دینے سے کام نہیں چلے گا آپ حقیقت قوم کے سامنے رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ نیب کی جانب سے لوگوں کو بلا بلا کر فارم دیا جارہا ہے کہ اپنے بیس سال کی آمدن او راخراجات کا بتاؤ جس میں بچوں کی فیسوں،
نوکروں کی تنخواہوں کا بھی پوچھاجارہا ہے۔ میں نے تو یہ گوشوارہ بھر کر ویب سائٹ پر ڈال دیا ہے، کیا ملک کا وزیر اعظم، اس کی کابینہ کے لوگ اسے بھر کر ویب سائٹ پر ڈالیں گے کہ ان کے پہلے حالات کیا تھا اور آج کیا ہیں اور میں انہیں چیلنج کرتا ہوں۔ اگر یہ ایسا کرتے تو رات بارہ بجے بزدلی والی تقریر نہ کرتے بلکہ دن کی روشنی میں اور اگرہمت ہوتی تو اسمبلی میں آکر تقریر کرتے، آپ بھی اپنے گوشوارہ بھر کر عوام کے سامنے رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ
ہماری حکومت نے پانچ سال گزارے ہیں، آج عمران خان کی حکومت ہے آئی ایس آئی، آئی بی او رایف بی آر سمیت دیگر ادارے آپ کے ماتحت ہیں، آج آپ کی حکومت ہے لیکن آپ کو اس کا احساس نہیں۔دس ماہ گزر چکے ہیں ہماری کرپشن یا دھاندلی کا ایک بھی ثبوت ایف آئی اے کو بھیجا ہے۔ ہم نے پانچ سال میں کرپشن اور دھاندلی کی ہے تو عمران خان یا ان کی کابینہ نے نیب کو بھیجا ہے کہ فلاں وزارت میں کوئی کرپش ہوئی ہے۔ آپ نے الزام لگانا ہے تو اس کے پیچھے بھی کھڑے ہوں۔
آپ کے وزراء نے وزارتیں سنبھالی ہیں کسی نے کہا ہے کہ ہم نے کرپشن کے ریکارڈ دیکھے ہیں آپ تفتیش کریں لیکن صرف تقریریں کرنے کا کیا مقصد ہے۔ آپ ادارں کو استعمال کریں اور تحقیقات کرائیں ا ور عوام کے سامنے رکھیں۔ عوام کو بتائیں نواز شریف کے دور حکومت میں کونسی کرپشن ہوئی ہے او رکونسا وزیر اس میں ملوث رہا ہے کیونکہ آج سب کچھ آپ کے پاس اور اختیار میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ کمیشن بنا لیں لیکن صرف ایک سوچی سمجھی کے تحت صرف سیاستدانو ں کو
بدنام کیا جارہا ہے، عوام کی خدمت کرنے والوں کو بدنام کیا جارہا ہے او ریہ صرف اپنی ناکامی کو چھپانے او ربجٹ سے توجہ ہٹانے کیلئے ہے، حکومت راہ فرار اختیار کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 72سالہ تاریخ میں کبھی کسی صدر یا وزیر اعظم نے رات بجے تقریر کی ہے؟کون سی ایمر جنسی تھی کی تقریر کرنے کی ضرورت پیش آگئی، اس سے ان کی ذہنی کیفیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اس لئے ہم نے کہا تھاکہ ایک اعلیٰ سطحی کمیشن بنایا جائے جو زیر اعظم کی ذہنی کیفیت کا تعین کرے کہ
یہ کیسی ہے۔انہوں نے کہا کہ بیشک کمیشن بنایا جائے اور حقائق قوم کے سامنے رکھے جائیں اور حکومت کے پاس ا س کا اختیار ہے۔ نیب جو کر رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے، نیب کے ذریعے ایک کام لیا جارہا ہے کہ جو بولتا ہے اسے دبایا جائے، اپوزیشن کو دبایا جائے اور اس کی آواز کو بند کیا جائے۔ کیا حمزہ شہباز شامل تفتیش نہیں تھے کہ انہیں گرفتار کر کے ریمانڈ پرلے لیا گیا۔ قتل کے کیس میں 12دن کا ریمانڈ ہوتا ہے لیکن نیب دو سے تین ہفتے کے ریمانڈ پر لے جارہا ہے۔ عجیب صورتحال ہے کہ
ہمیں الزام ہی پتہ نہیں کہ الزام ہے کیا۔ جس ملک میں ڈیو پراسس نہ ہو جہاں انصاف نہ ہو وہاں جمہوریت نہیں چل سکتی۔ احتساب کے نام پر جمہوریت اور اپوزیشن کو دبائیں گے تو ملک میں ترقی کیسے ہو گی۔انہوں نے کہا کہ جس ملک میں سپریم کورٹ کا جج ڈیو پراسس حاصل نہ کر سکے، جہاں قومی او رپنجاب اسمبلی کے قائد حزب اختلاف ڈیو پراسس حاصل نہ کر سکیں وہاں کیا صورتحال ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ نیب کے قانون میں ریمانڈ کی گنجائش ہے لیکن یہ بے دریغ استعمال اور
ہتک کے لئے نہیں ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ کس کو بلا کر کیا الزامات لیک کرائے گئے یہ صرف حکومتی ناکامی سے توجہ ہٹانے کے لئے ہے کہ سیاستدانوں کی ہتک کی جائے۔ جس ملک میں سیاستدانوں کی عزت نہیں ہوتی وہ ملک ترقی نہیں کرتا۔ جب سلیکٹڈ حکمران آئیں تو نتائج دیکھ لیں دس ماہ میں ملک کہاں سے کہاں چلا گیا۔اگر عمران خان کے پاس جواب ہیں تو قوم کو بتائیں۔ انہوں نے کہا کہ ان سے اسمبلی سے نہیں چلتی، سپیکر اور وزراء بھاگتے ہیں، آج تک ایک منٹ کے لئے عوام کے مسائل پر
بحث نہیں ہوسکی۔ پروڈکشن آڈر جاری نہ کرکے جموری اقدار کی نفی کی گئی۔ آج جمہوریت، معیشت اور سالمیت انڈر تھریٹ ہے۔ اسمبلی میں سو لہ، سولہ گھنٹے بحث ہو اور اور عوام کے مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ نیب چیئرمین کے معاملے پر ہم نے کہا کہ پارلیمان کی سپیشل کمیٹی بنا دی جائے تاکہ دودھ کا دودھ او رپانی کا پانی ہو جائے کیونکہ انٹر ویو کرنے والا صحافی اپنے کہے ہوئے پر قائم ہے۔ ہمارے پاس بھی فلمیں آئیں لیکن ہم نے کہا کہ ہم اس کام میں نہیں پڑتے، حکومت اور
اس کے حواریوں نے فلمیں چلائیں، فلمیں چلانے میں حکومت کے ذرائع ملوث ہیں۔ نیب چیئرمین کہتے ہیں کہ اگر میں حکومت کے لوگوں کو پکڑوں گا تو حکومت ٹوٹ جائے گی، قائد حزب اختلاف کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کی گئی ہیں۔ پارلیمنٹ با اختیار نہیں ہے جو چیئرمین نیب کو بلائے اور ان سے پوچھے کہ آپ نے یہ باتیں کس مقصد کی ہیں اگر جاوید چوہدری نے بے بنیاد الزامات لگائے ہیں تو ان سے پوچھا جائے کہ آپ نے جمہوری نظام کی بد نامی کیوں کی او رعوام یہ حقائق جاننا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے 72سالوں میں بہت مار کھائی ہے اس میں سیاستدانوں سے بھی غلطیاں ہوئیں، دوسروں کی بھی غلطیاں ہوں گی، ہم نے تو کہا تھاکہ ٹروتھ کمیشن بنا دیں اور اسے ڈاکو منٹڈ کر دیں لیکن آج اس بات کی ضرورت ہے کہ جو خرابی ہو رہی ہے اس کو تو روکیں۔ اس ملک میں پارلیمنٹ کو سب سے سپریم باڈی مانتے ہیں لیکن اگر آج وہ اپنا دفاع نہ کر سکے تو ملک کیسے چلے گا۔ پارلیمانی کی عزت ہونی چاہیے،مسائل پر بحث ہونی چاہیے لیکن حکومت پارلیمان سے راہ فرار اختیا ر کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کی دس ماہ کی ناکامیوں کاگزشتہ حکومتوں سے کوئی تعلق نہیں، گروتھ ریٹ میں کمی، ڈی ویلیو ایشن کو اضافی ٹیکسز سے پورا کیا جائے گا اور اس کا اعتراف وزیر اعظم نے اپنی معاشی ٹیم کو باہر نکال کر خود کیا ہے۔