لاہور(این این آئی) سابق چیئرمین سینیٹ و پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سینیٹر رضا ربانی نے کہا ہے کہ کابینہ کی منظوری کے بغیر ججز کے خلاف ریفرنس سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی ہے، آئین کے آرٹیکل 290کے کلاز 5اور6میں ترمیم ناگزیر ہے جس کے تحت کوئی بھی ریفرنس بھیجنے سے قبل معاملے کو پارلیمنٹ بھیجنے کو لازمی قرار دیا جائے،جسٹس قاضی فائز عیسی جیسے ججوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے انہیں اصولوں پر کھڑا ہونے کی سزا دی جا رہی ہے،
پی ٹی ایم سے اس لئے دلچسپی ہے کیونکہ ہم نے ماضی سے سبق سیکھا ہے،کچھ قوتیں وفاق کو کمزور اور ختم کرنا چاہتی ہیں،سیاسی ڈائیلاگ کے ذریعے مسائل کا حل نکالا جائے،لگتا ہے کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر مصری ماڈل کی جانب جایا جا رہا ہے۔پیپلز پارٹی کے رہنما اسلم گل کے بھائی کے انتقال پر اظہار تعزیت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ اسلم گل اور ان کے خاندان کی پیپلزپارٹی کے ساتھ دیرینہ رفاقت رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو عالمی مالیاتی سامراج کے ہاتھوں یرغمال بنا دیا گیا ہے،ایسامشیر خزانہ لگایا گیا جس کا تعلق آئی ایم ایف سے ہے۔وہ ہمارے دور میں بھی مشیر خزانہ تھا لیکن غلطی کو دوبارہ نہیں دہرانا چاہیے۔آئی ایم ایف کے حاضر سروس افسر کواسٹیٹ بنک کا گورنر لگانا ظاہر کرتا ہے کہ ہمارا سب کچھ بین الاقوامی مالیاتی سامراج کے ہاتھوں گروی ہے۔امریکہ اپنے مفادات کے لئے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک جیسے اداروں کو استعمال کرتا ہے او ریہ واضح رپورٹس آ چکی ہیں۔موجودہ بین الاقوامی حالات میں آئی ایم ایف کی جانب سے ملکی معیشت کو کنٹرول کرنا تشویشناک اور خطرے کی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے آئی ایم ایف پیکج کو پارلیمان یا عوام کے سامنے پیش نہیں کیا،حکومت نے اپنی پالیسی میں شفٹ کیا ہے،لگتا ہے کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر مصری ماڈل کی جانب جایا جا رہا ہے اوراس وقت ملک میں تقریباً وہی صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔انہوں نے کہا کہ بنیادی انسانی حقوق سلب کر کے فاشزم کی طرف جایا جا رہا ہے۔
جس طرح وفاقی حکومت اور صدر نے اعلی عدلیہ کے ججوں کیخلاف ریفرنسز بھیجے ہیں یہ خطرناک ہے۔یہ وکلا ء تحریک کے اثرات کو ختم کرنے کی کوشش ہے۔آج موجودہ کابینہ میں مشرف کی کابینہ کے سب لوگ شامل ہیں اور وہ مشرف کے ایجنڈے کو نافذ کرنا چاہتے ہیں۔12 مئی 2017 میں مشرف دور کراچی میں وکلا ء کیخلاف کارروائی کے دنوں میں آئی بی کے سربراہ آج کے وزیر داخلہ ہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسی جیسے ججوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے،انہیں اصولوں پر کھڑا ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔
اگر حکومتی موقف ہے کہ آئین کے مطابق کام کیا گیا تو سپریم کورٹ کا فیصلہ آ چکا کہ وزیراعظم اپنے طور پر کوئی کام نہیں کر سکتا۔کابینہ کے علم میں لائے بغیر ریفرنسز دائر کیے جانے کا عمل اس بنیاد پر ہی رد ہو جانا چاہیے۔ایسسٹ ریکوری یونٹ سے چند سوال ضروری ہیں، یہ کس قانون کے تحت بنایا گیا اور کام کر رہا ہے۔کس قانون کے تحت اس یونٹ کو شہریوں کے اکاؤنٹس، مالی ریکارڈ اور انکم ٹیکس کے گوشواروں تک رسائی دی جاتی ہے،وہ کونسا طریقہ کار تھا جس کو استعمال کرتے ہوئے ایسسٹ ریکوری یونٹ نے کھوج لگایا گیا اور جسٹس قاضی فائز عیسی کے اثاثوں تک پہنچے،کتنے لوگوں کا ڈیٹا تھا جس میں یہ بات سامنے آئی کہ لوگوں کی ٹیکس ریٹرنز پوری نہیں ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کی فائل کے علاوہ اور کتنوں لوگوں کا ریکارڈ چیک کیا گیا جس میں لوگوں کے ریکارڈز نامکمل تھے،ن دیگر اشخاص کے بارے میں کیا ایکشن لیا جا رہا ہے، اگر سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جا رہا تو ان سوالات کے جواب آنے چاہئیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسی کے صدر کے نام دوسرے خط میں سامنے آ گیا کہ حکومتی بدنیتی واضح ہو گئی ہے۔آئین کے آرٹیکل 290 کے کلاز 5 اور 6 میں ترمیم کی جانی چاہیے تاکہ صدر کی جانب سے ریفرنس بھیجنے سے قبل پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں سارا ریکارڈ رکھا جائے پھر ریفرنس دائر کیا جائے،اس ترمیم سے آئین میں ہم آہنگی پیدا ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے مشرف اور عمران خان کی حکومت میں کوئی فرق نہیں لگتا۔آج حالات بہت بدل چکے، نیو دہلی، واشنگٹن اور اسرائیل اتحاد سامنے آرہا ہے۔سینیٹ کی کمیٹی میں ریاست، پی ٹی ایم اور دیگر اداروں کو بھی بلایا جائے،میں اجازت نہیں دوں گا کہ میری حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ کہیں اور سے جاری ہو۔پیپلزپارٹی کو پی ٹی ایم سے اس لئے دلچسپی ہے کہ ہم نے ماضی سے سبق سیکھا ہے،کچھ قوتیں وفاق کو کمزور اور ختم کرنا چاہتی ہیں،سیاسی ڈائیلاگ کے ذریعے مسائل کا حل نکالا جائے۔ فوج کا فاٹا میں کردار قابل تحسین ہے۔انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی ہمیشہ آزاد عدلیہ کے لئے کھڑی ہوئی ہے، مستقبل میں عدلیہ بچاؤ تحریک کا کوئی فیصلہ ہوا تو پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی فیصلہ کرے گی۔