اسلام آباد(این این آئی)قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی نے ججزکی تعیناتی کا طریقہ کارتبدیل کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے سفارشات طلب کرلیں۔ منگل کو اسلام آباد میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی قانون و انصاف کا اجلاس ہوا۔ کمیٹی نے ججزکی تعیناتی کا طریقہ کارتبدیل کرنے پرکام کرنے کااعلان کرتے ہوئے ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار،اہلیت پرتمام بارکونسلز سے سفارشات مانگ لیں۔چیئرمین قائمہ کمیٹی ریاض فتیانہ نے کہا کہ ججز کی تعیناتی کیلئے تحریری اورنفسیاتی ٹیسٹ ہونا چاہیے اور
اس حوالے سے طریقہ کار طے کرنے کیلئے عوامی سماعت ہونی چاہیے۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ججز کی تعیناتی کا طریقہ کار قابل اعتراض ہے جسے تبدیل ہونا چاہیے، ججز کی تعیناتی میں عدلیہ حاوی ہے۔قائمہ کمیٹی قانون وانصاف کے ارکان نے کہا کہ ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار پرباضابطہ بحث ہونی چاہیے، ججز تعیناتی کی پارلیمانی کمیٹی کا کام صرف انگوٹھا لگانا ہے۔چیئرمین کمیٹی ریاض فتیانہ نے بتایا کہ سابق چیف جسٹس نے لاہور ہائی کورٹ کے جج کی متعلقہ چیف جسٹس کے بغیر تقرری کردی، لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے متعلقہ جج کی تقرری کی سفارش نہیں کی تھی، پارلیمانی کمیٹی نے جج کا نام مسترد کردیا تو پٹیشن کراکے تقرری کردی گئی۔رانا ثناء اللہ نے کہا کہ چیف جسٹس کہتے ہیں قانون وہ ہوگا جو ہم طے کریں گے، بات ہونی چاہیے ،قانون کس کا حتمی ہوگا،قانون تو پارلیمنٹ بناتی ہے۔رکن اسمبلی عالیہ کامران نے اسلام آباد ہائی کورٹ ترمیمی بل 2019 کمیٹی میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کیلئے ہر صوبے کا کوٹہ ہونا چاہیے، وزارت قانون نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی تعیناتی کا طریقہ کار موجود ہے، اس پر الجھن اٹھارویں ترمیم میں پیدا ہوئی۔ قائمہ کمیٹی نے بحث کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ ترمیمی بل مسترد کردیا۔جلاس میں وزارت قانون کی جانب سے
اسلام آباد کی قومی اسمبلی کی نشستیں بڑھانے کا بل پیش کیا گیا۔بل میں کہا گیا تھا کہ اسلام آباد میں خواتین کو نمائندگی دینے کے لیے نشستوں کی تعداد تین سے بڑھا کر چار کی جائے۔کمیٹی نے یہ آئینی ترمیم کثرت رائے سے منظور کر لی۔پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد اسلام آباد سے قومی اسمبلی کی کل نشستیں تین سے بڑھ کر چار ہوجائیں گی۔اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن رمیش کمار نے شراب پر پابندی سے متعلق آئینی ترمیمی بل پیش کیا، انہوں نے اپنے
بل میں آئین کے آرٹیکل 37 میں ترمیم کی تجویز دی۔انہوں نے کہاکہ اقلیتوں کے کوٹے کے نام پر شراب کی فروخت بند کی جائے، ہمارے نام پر شراب لی جاتی ہے اور پیتا کوئی اور ہیں، بدنام ہمارا مذہب ہوتا ہے، ہمارے مذہب میں شراب منع ہے۔انہوں نے انکشاف کیا کہ سندھ میں 160 شراب کے ویئر ہاوسز ہیں جن میں سے 10 فیصد اقلیتوں کے باقی وڈیروں کے ہیں۔کمیٹی کی رکن شنیلا رتھ نے کہا کہ پرمٹ لیتا بوٹا مسیح اور پیتا محمد بوٹا ہے، ہمارے
مذہب میں بھی شراب کی اجازت نہیں ہے لہٰذا اقلیتوں کو بدنام نہ کیا جائے۔کمیٹی نے بل مسترد کرتے ہوئے اسے شرارت اور شہرت کا حصول قرار دیا۔اس موقع پر رمیش کمار نے کہا کہ غیر مسلم مذہبی ایام پر بھی شراب کی فروخت کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، جبکہ مجھے شہرت کی ضرورت نہیں ہے۔رکن کمیٹی رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ملک میں شراب کی خرید و فروخت پر پابندی ہے، آئین میں جب پابندی ہے تو نئی پابندی لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔