اسلام آباد (این این آئی) سابق چیئرمین سینیٹ سینیٹر رضا ربانی وزرا کی عدم شرکت کے باعث قائمہ کمیٹی کی رکنیت سے مستعفی ہوگئے اور کمیٹی کے چیئرمین سمیت دیگر اراکین نے احتجاج کیا تاہم وزارت قانون، تعلیم اور کامرس حکام نے بریفنگ دی۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے حکومتی یقین دہانیوں کا اجلاس سینیٹر طاہر بزنجو کی صدارت میں ہوا جہاں سینیٹر کرشنا کماری، لیاقت خان ترکئی، عابدہ عظیم اور دیگر ارکان شریک ہوئے اور کمیٹی کو وزارت قانون، تعلیم اور کامرس کے عہدیداروں نے بریفنگ دی۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں کوٹا سسٹم، اسلام آباد میں اسکولوں میں اساتذہ کی کمی، طلبہ میں منشیات کا استعمال، تجارت اور منی بجٹ کے حوالے سے معاملات زیرغور آئے۔اراکین کمیٹی نے وزیر قانون کی عدم حاضری پر برہمی کا اظہار کیا، سینیٹر کرشنا کماری کا کہنا تھا کہ وزیر قانون کہاں ہیں؟ انہوں نے کمیٹی کو مذاق سمجھ رکھا ہے حالانکہ کمیٹی کے ایک اجلاس پر خاصی رقم خرچ ہوتی ہے اس لیے وزیر قانون کو عوام کے پیسوں کا احساس ہونا چاہیے۔سینیٹر کرشناکماری نے کہا کہ وزیر قانون بتائیں کہ انہیں کمیٹی میں آنا ہے یا صرف مذاق کرنا ہے، صرف وزیر قانون مصروف نہیں ہوتے ہمیں بھی کام ہوتے ہیں لیکن ہم تمام کام چھوڑ کر اجلاس میں شرکت کرتے ہیں اور وزرا آتے نہیں۔کمیٹی اراکین نے وزیر قانون کی عدم شرکت پر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ وزیر قانون کی عدم شرکت پر ہم احتجاج کرتے ہیں کیونکہ وزیر قانون کی شرکت انتہائی ضروری تھی۔لیاقت تراکئی کا کہنا تھا کہ رضا ربانی نے وزرا کی عدم حاضری پر استعفیٰ دیا اور واضح کیا تھا کہ وزرا نہیں آتے تو جواب کس سے لیا جائے، جب وزرا نہیں آتے تو ہمارے یہاں بیٹھنے کا کیا فائدہ ہے۔چیئرمین کمیٹی کا کہنا تھا کہ ہمارا وقت اور پیسے بھی ضائع ہوگئے۔کمیٹی اراکین کا کہنا تھا کہ ایوان میں متعلقہ وزیر کی جانب سے کوٹا سسٹم سے متعلق یقین دہانی کرائی گئی تھی اور کہا تھا کہ اس معاملے پر جلد قانون سازی کی جائے گی۔وزارت قانون کے حکام نے کہا کہ کوٹا سسٹم ایک اہم معاملہ ہے اور اس حوالے سے سپریم کورٹ کے دو فیصلے بھی موجود ہیں۔
چیئرمین کمیٹی کا کہنا تھا کہ ورلڈ بینک کے مطابق بلوچستان میں شرح غربت 62 فیصد ہے اور تعلیم کے لحاظ سے بھی بلوچستان میں سہولیات میسر نہیں۔کمیٹی کے اجلاس میں تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کا معاملہ بھی زیربحث آیا اور اراکین سینیٹ نے تعلیمی اداروں میں منشیات کے معاملے پر تشویش کا اظہار کیا۔اجلاس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ طلبہ امتحانات کے دوران بڑی مقدار میں منشیات استعمال کرتے ہیں۔سینیٹر فدامحمد کا کہنا تھا کہ طلبہ کی جانب سے امتحانات کے وقت منشیات کا زیادہ استعمال ہو رہا ہے
جبکہ سینیٹر کرشناکماری نے کہا کہ منشیات کی سپلائی میں مقامی افراد ملوث ہیں۔سینیٹر کرشنا کماری کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے تعلیمی اداروں میں منشیات کی سپلائی کو روکا جائے۔کمیٹی نے وزارت تعلیم کو منشیات کے استعمال سے متعلق سروے کرانے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ اور اس حوالے سے تمام تفصیلات کمیٹی میں پیش کی جائیں اوربتایا جائے کہ اسلام آباد میں کتنے طلبہ منشیات استعمال کر رہے ہیں۔سینیٹرفدامحمد نے کہا کہ لڑکے اور لڑکیوں کی جانب سے منشیات کا استعمال ہو رہا ہے اور تعلیمی اداروں میں یہ رجحان بڑھتا جارہا ہے۔
انہوں نے سوال کیا کہ منشیات کا زیادہ استعمال سرکاری یا نجی اسکولوں میں ہو رہا ہے جبکہ آئس نشہ کھلم کھلا لوگ خرید رہے ہیں۔کمیٹی کو وزارت کامرس نے بریفنگ دی اور اس دوران کہا گیا کہ حکومت نے پاکستانیوں کو 100 ممالک میں ویزا آن ارائیول پالیسی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔وزارت کامرس کے حکام کا کہنا تھا کہ 100 ممالک سے 10 ملین ڈالرز سے زائد کی تجارت ہورہی ہے اورجن ممالک سے 100 ملین ڈالرز کی تجارت ہورہی ہے وہاں ویزا آن ارائیول دینے کی پالیسی بنائی جا رہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر وزارت داخلہ میں ایک اہم اجلاس بھی ہو چکا ہے
جہاں اس پالیسی پر مشاورت ہوئی تھی۔وزیراعظم کے مشیر عبدالرزاق داؤد نے بھی قائمہ کمیٹی کو صورت حال سے آگاہ کیا اور کہا کہ حکومت نے برآمدات پر ریگولیٹری ڈیوٹی کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ضمنی بجٹ میں ریگولیٹری ڈیوٹی مزید کم کر دیں گے۔انہوں نے کہا کہ جو غیر ضروری اشیا درآمد ہو رہی ہیں ان پر ریگولیٹری ڈیوٹی مزید لگا دیں گے اور جس کو یہ چیزیں درآمد کرنی ہوں وہ مزید رقم ادا کریں گے جس پر سینیٹر فدامحمد نے کہا کہ غیر ضروری اشیا کی درآمد پر پابندی لگا دیں۔عبدالرزاق داؤد نے کہا کہ یہ تجویز وزیر اعظم کے سامنے رکھ دوں گا لیکن ہمیں اس وقت غیر ملکی کرنسی کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ ہماری برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں کمی ہوئی ہے، مئی اور جون میں جو تجارتی خسارہ تھا اب وہ کم ہو گیا ہے۔مشیر تجارت نے کہا کہ ہم نے برآمدات میں اضافے کے لیے اہم تبدیلیاں کی ہیں، صنعتوں کو گیس اور بجلی کی رعایتی نرخوں پر فراہم کی جارہی ہے، ہماری سمت درست ہے، صنعت کے شعبے میں اگلے 6 ماہ میں مزید بہتری آئے گی۔