فوجی دلوں میں ن لیگ کیلئے نرم گوشہ کیسے ختم ہوا؟ اعلیٰ عسکری قیادت نے فاٹا آپریشن کے بعد کیا فیصلہ کر لیا تھا، دہشتگردی کیخلاف جنگ سے کرپشن کیخلاف کارروائیوں تک کی داستان ، معروف صحافی ایاز امیر کے انکشافات

26  دسمبر‬‮  2018

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ملک میں اس وقت تحریک انصاف حکومت بنا کر اقتدار میں آچکی ہے اور ایسے میں کرپشن کے خلاف ملک گیر کارروائیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے جس میں نیب، عدلیہ اور حکومت شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں۔ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو دہشتگردی کے خلاف جنگ کے بعد کرپشن کے خلاف کارروائیوں تک ایک ہوشربا داستان سامنے آتی ہے۔ اس حوالے سے معروف صحافی ،

تجزیہ کار اور کالم نگار ایاز امیر اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ وسط 2014میں ایس لگتا تھا کہ پاکستان ان خطرات کے سامنے بے بس ہو چکا ہے، لیکن پھر افواج پاکستان نہ کہ کسی سویلین حکومت نے ، فیصلہ کیا کہ ان چیلنجز کا سامنا کرنا ناگزیر ہے، اگر پاکستان کو بچانا ہے۔ اسی سوچ کے پیش نظر شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کیا گیا۔ اس سے پہلے عام خیال یہ بن چکا تھا کہ علاقہ اتنا دشوار ہے اور ٹی ٹی پی اتنی خوفناک تنظیم ہے کہ یہاں ایکشن کرنا نہایت مشکل ثابت ہو گا، لیکن پاکستان ائیر فورس کی کلیدی معاونت کے ساتھ فوج نے پیش قدمی کی اور ناممکن کو ممکن بنا دیا۔ فوج نے بہت نقصان اٹھایا، جوانوں کے ساتھ نوجوان افسران کی بہت شہادتیں ہوئیں۔ ضلع چکوال فوجی علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں کسی گائوں کے قبرستان شہدا کی قبروں سے خالی نہیں۔ فوجی سربراہی جنرل راحیل شریف اور بالعموم فوجی کمان نے بھی آپریشن کی ایسی قیادت جیسی کرنی چاہئے تھی۔ ائیر فورس کے پائلٹوں کا بھی بہت نمایاں کردار اس جنگ میں رہا۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ نوجوان جو فاٹا میں اپنا خون بہارہے تھے اور سینوں پہ گولیاں کھا رہے تھے، وہ اس لئے یہ کر رہے تھے کہ ملک پہ کرپشن کے بادشاہوں کا راج رہے؟ دوران فاٹا آپریشن یہ بات سامنے آنے لگی کہ فوجی افسران کے دلوں میں کرپشن کے خلاف نفرت سخت شکل اختیار کر رہی ہے۔ ایک زمانے میں فوجی جذبات پی پی پی

مخالف ہوا کرتے تھے لیکن جب شریف خاندان کی کرپشن کی کہانیاں سامنے آنے لگیں تو فوجی دلوں میں نون لیگ کیلئے جو نرم گوشہ ہوا کرتا تھا وہ بتدریج ختم ہونے لگا۔ یہ خیال فوجی رینکوں میں ابھرا کہ پاکستان کو بچنا ہے تو اونچے لیول کی کرپشن کا خاتمہ ضروری ہے۔ فاٹا آپریشن کے بعد فوج کی معاونت سے رینجرز نے کراچی میں آپریشن شروع کیا ۔ وہاں بھی یہ خیال عام ہو چکا تھا کہ ایم کیو ایم

کی جڑیں اتنی مضبوط ہیں کہ انہیں اکھاڑنا مشکل ثابت ہوگا، لیکن جب صحیح طو رپہ عزم دکھایا گیا، تو ایم کیو ایم کا کراچی پہ تسلط ختم ہونے لگا۔ اس سے پہلے لاہور ہائیکورٹ کے ایک حکم سے ٹیلی ویژن پر الطاف حسین کی زبان بندی ہو چکی تھی۔ جب وہ تقریر فرماتے تھے تو پورا ملک ان کی تقریر کا یرغمال بن جاتا تھا، کیونکہ ہر ٹی وی چینل ان کی تقریر کی مکمل کوریج لازمی سمجھتا تھا۔

آج ایسا لگتا ہے کہ کراچی پہ ایم کیو ایم کا راج کبھی تھا ہی نہیں اور لندن بیٹھ کر جناب الطاف حسین کی گھنٹوں لمبی تقریریں ایک ڈرائونے خواب سے زیادہ کچھ نہ تھیں۔ افواج میں تو سوچ پیدا ہو چکی تھی کہ ملک کی بقا کیلئے کرپشن کا خاتمہ ناگزیر ہے، لیکن اس موقع پہ آسمانوں سے بھی مدد ملی۔ جب فاٹا اور کراچی آپریشن کامیابی سے ہمکنار ہو چکے تھے ، تو اپریل 2016میں پانامہ پیپرز کا دھماکہ۔

ہزاروں ناموں میں شریف فیملی کے بھی نام سامنے آئے اور وہ سلسلہ آہستہ آہستہ شروع ہوا، جس کے نتیجے میں نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونے پڑے اور انہیں کرپشن کے حوالے سے سزائیں ملیں ۔ ہم جیسے جلد باز سمجھتے تھے کہ یہ بڑے مگرمچھ کسی نہ کسی طریقے سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن وہ جو انگریزی کا مقولہ ہے ’’The mills of God grind slowly

but they grind exceeding small‘‘۔ یعنی خدا کی چکیاں پیسی آہستہ ہیں ، لیکن پیستی بہت باریک ہیں۔ جوں جوں جھوٹے بے نقاب ہوئے شریفوں کے گرد گھیرا تنگ ہوتا گیا، پھر نادانیاں بھی ہوئیں، وہ کہاں گھڑیں جن پہ سکول جانے والے بچے بھی یقین نہ کرتے۔ زُعم میں بھی مبتلا رہے اور بے تُکے نعرے لگاتے رہے جیسا کہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘اور ’’ووٹ کو عزت دو‘‘سمجھ انہیں تب

آئی جب پلوں کے نیچے سے پانی بہہ چکا تھا پھر انہوں نے وہ حکمت اپنائی جو پہلے اپنانی چاہئے تھی یعنی مکمل چپ سادھ لی۔ اب حالت یہ ہے کہ حلق سے آواز نہیں نکل رہی۔ خدا کی چکیاں جب پیسنے لگیں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ کس احمقوں کی جنگ میں وہ لوگ بستے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ شہباز شریف بچ جائیں گے۔ کار کا فالتو پہیہ جسے سٹپنی کہتے ہیں اس لئے رکھا جاتا ہے کہ بوقت ضرورت کام آئے۔

کوئی بتائے تو سہی کہ شہباز شریف کس کام کے رہ گئے ہیں؟کیا ان کے بغیر ملک کی خارجہ پالیسی نہیں چلے گی؟ کیا عمران خان کو ان کی پنجاب میں ضرورت پڑے گی؟ یہ فضول کی باتیں ہیں۔ ابھی تو بہت سارے دریا سامنے ہیں ، آشیانہ سے لیکر ماڈل ٹائون تک۔ شریفوں کے ساتھ جو ہونا تھا ہو گیا، لیکن یہ کیسے ممکن تھا کہ صفائی ایک طرف ہو اور کراچی اور سندھ کی شکار گاہیں

اس عمل سے بچ جائیں؛ اگر زرداری سمجھ رہے تھے کہ وہ بچ نکیں گے تو ان سے بڑا بے وقوف کوئی ہو نہیں سکتا۔ وہ کرپشن کے بادشاہ نہ تھے انہوں نے اور ان کے پراپرٹی معاونین نے غدر مچا رکھی تھی، جس کی ایک جھلک جے آئی ٹی رپورٹ میں سامنے آئی ہے؛اگر پاکستان کے اداروں نے کرپشن کے خلاف جنگ کا ارادہ کر لیا تھا تو زرداری کیسے بچ سکتے تھے؟اس میں بھی

زیادہ کریڈٹ چیف جسٹس ثاقب نثار کو جاتا ہے، جنہوں نے اومنی گروپ اور معاونین کی منی لانڈرنگ کا نوٹس لیا اور اب ہر چیز سامنے آچکی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آصف علی زرداری کی گرفتاری دور کی بات نہیں۔ چیف جسٹس صاحب نے مہینوں کی تاریخ نہیں دی۔ ایاز امیر مزید لکھتے ہیں کہ وہ جنگ جس کا آغاز وسط 2014میں ہوا اس کے دوران ہی الیکشن منعقد ہوئے اور ایک نئی حکومت معرض وجود میں آئی۔ اب ملک میں ایک ٹرائیکا ہے: منتخب حکومت‘آزاد اور طاقتور عدلیہ اور مسلح افواج۔ اس ٹرائیکا کے سامنے کرپشن کے بادشاہوں کی کیا اوقات؟رہ گئی ملک کی معاشی ریکوری۔ جب تک اس میں کامیابی نہ ہو پانچ سال پہلے شروع ہونیوالی جنگ نامکمل رہے گی۔

موضوعات:



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…