اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) ملک کا معاشی بحران نئی حکومت کے لیے چیلنج بنا ہوا ہے، ڈالر کی قدر اور شرح سود کا تعین سٹیٹ بینک کی ذمہ داری ہے، اس سارے معاملے میں کلیدی کردار گورنر سٹیٹ بینک طارق باجوہ کا ہے، ایک نجی ٹی وی چینل کی رپورٹ کے مطابق ڈالر کا دو بار اونچی چھلانگ لگاتے ہوئے روپے کو بے قدر کر دینا حکومت کے لیے پریشانی کا باعث ہے، آخری بار تو روپیہ ڈالر کے مقابلے میں یکا یک گیارہ روپے گر گیا،
روپے کی قدر میں کمی کی وجہ اوپن مارکیٹ نہیں بنی، وزیر خزانہ اسد عمر نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ بیلنس آف پیمنٹ کا کوئی بحران نہیں، ذرائع کا کہنا ہے کہ جس دن نے ڈالر کی قدر میں 11 روپے اضافہ ہوا اس دن ڈالر کی طلب نہیں تھی، ڈالر کی قیمت بڑھی کیسے، اس بارے میں رپورٹ میں بتایاگیا کہ ہر روز گورنر اسٹیٹ بینک پانچ بڑے بینکوں کے ٹریژری ہیڈز کو روزانہ فون کرکے ڈالر کی حدود و قیود کا بتاتے ہیں لیکن اس روز گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ نے ٹریژری ہیڈز کو فون کرکے کہا کہ آج کوئی حد نہیں، جو مرضی کر لیں، یعنی جتنا جی کرے روپیہ بے وقعت کر دیا جائے، بس پھر چند گھنٹوں میں کہاں سے کہاں پہنچ گیا، اسٹیٹ بینک ایک آزاد اور خود مختار ادارہ ہے یہ کسی سے ڈکٹیشن نہیں لیتا، ایکسچینج ریٹ اور مانیٹری پالیسی کا تعین اسٹیٹ بینک کا اختیار ہے، رپورٹ میں کہا گیا کہ اختیار ذمہ داری کا متقاضی ہوتا ہے کیونکہ ڈالر کی قدر میں اضافہ کا اثر براہ راست غریب عوام پر پڑتا ہے، اس بحران کے اصل محرک گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ ہیں ان کا معیشت میں کوئی تجربہ نہیں، وہ ایک ڈی ایم جی افسر ہیں وہ فنانس کے متعلق عہدوں پر ضرور رہے مگر گورنر اسٹیٹ بینک کے لیے موزوں نہیں، دوسرا یہ کہ گورنر اسٹیٹ بینک ماضی میں اسحاق ڈار کے منظور نظر رہے ہیں، گورنر اسٹیٹ بینک کے عہدے کے لیے تین نام سامنے آئے لیکن اسحاق ڈار نے طارق باجوہ کو منتخب کیا، ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ ڈالر کی قیمت کا تعین اوپن مارکیٹ کو کرنا چاہیے، مگر اس معاملے میں اوپن مارکیٹ کے بجائے گورنر اسٹیٹ بینک نے بڑا فیصلہ لے لیا وہ بھی کسی ایمرجنسی کی صورتحال کے بغیر۔ اس فیصلے سے لوگوں کے اربوں روپے ڈوب گئے۔