اسلام آباد (این این آئی)چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے ہیں کہ منرل واٹر کمپنیوں کو زیرزمین پانی نکالنے کی قیمت ہر صورت ادا کرنی ہوگی، کمپنیاں ایک ہفتے میں اپنا نظام ٹھیک کرلیں ورنہ انہیں بند کردیں گے اور منرل واٹر کمپنیاں بند ہونے سے کوئی پیاسا نہیں مرے گا۔ پیر کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے زیرزمین پانی نکالنے سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی،
اس دوران منرل واٹر کمپنیوں کے وکیل پیش ہوئے۔سماعت کے آغاز پر عدالتی کمیشن کی رپورٹ پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالتی کمیشن کی رپورٹ بڑی ناقص ہے، رپورٹ دیکھ کر دل کرتا ہے تمام کمپنیاں بند کر دیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ منرل واٹر کمپنیوں والے رحم کریں، دریائے سندھ اور نہروں سے پانی لے رہے ہیں اور وہ پانی صاف کر کے بیچ رہے ہیں، منرل واٹر کمپنیوں پر پابندی لگنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ کمپنیاں زیر زمین پانی کی قیمت ادا کریں اور پانی کا معیار ٹھیک کریں، صرف قرشی اور گورمے کا معیار ٹھیک ہے، کمپنیاں یہ کام پیر تک کرلیں ورنہ انہیں بند کردیں گے۔ ماہرین نے عدالت کو آگاہ کیا کہ سات ارب لیٹر پانی منرل واٹر کمپنیاں ماہانہ نکالتی ہیں اور پانی کو صاف کرنے کیلئے لاشوں کو لگایا جانے والا کیمیکل استعمال کیا جاتا ہے ،آبی ماہرین کا کہناتھا کہ ایک گلاس پانی کیلئے تین گلاس پانی کمپنیوں میں ضائع کیا جاتا ہے، قدرتی منرل نکال کر مصنوعی منرل ڈال دیے جاتے ہیں،یہ جھوٹ ہے کہ کمپنیاں منرل ڈالتی ہیں ، منرل قدرتی طور پرپانی میں ہوتے ہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہمیں ان کمپنیوں سے کوئی ہمدردی نہیں،گندہ پانی سبزیوں کیلئے جارہا ہے اور وہ سبزیاں ہم کھاتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ قوم کے ساتھ دھوکا بند کیا جائے، ہم بچوں کیلئے گندہ پانی استعمال نہیں ہونے دینگے، دوران سماعت چیف جسٹس نے منرل واٹر کمپنی کے مالک سے مکالمہ کیا کہ آپ اب تک قوم کو برے معیار کا پانی پلاتے رہے ہیں،
آپ کو قوم اور ملک کا کوئی خیال نہیں؟ پیر تک معاملات ٹھیک کریں ورنہ کمپنیاں بند کریں گے اور اس سے لوگ پیاسے نہیں مریں گے کیونکہ کنویں کے پانی کا معیار اس پانی سے بہتر ہے۔سماعت کے دوران ڈی جی ماحولیات نے بتایا کہ زمین کی بہت گہرائی سے پانی لیا جارہا ہے، پنجاب میں نہروں سے پانی لے کر سیوریج نہروں میں ڈالتے ہیں، اس پانی سے سبزیاں اگتی ہیں۔ڈی جی ماحولیات کے مطابق فاضل پانی کو ری سائیکل کیے بغیر نہروں میں ڈال دیا جاتا ہے، سندھ میں دریائے سندھ اور نہروں کا پانی استعمال کیا جارہا ہے۔
ڈی جی ماحولیات نے بتایا کہ منرل واٹر کمپنیوں کے پاس ناکارہ آلات ہیں، ساتھ ہی انہوں نے پانی کا نمونہ بھی عدالت میں پیش کیا۔انہوں نے عدالت کو بتایا کہ کراچی میں زیر زمین پانی کی سطح 1300فٹ تک پہنچ چکی ہے، وہاں پانی صاف کرکے آلودہ پانی زمین بہر بہا دیا جاتا ہے، بوتل بند پانی بنانے والی کمپنیوں کے تکنیکی معاملات درست نہیں۔اس دوران کمپنی کے مالک شاہد حامد کے وکیل نے بتایا کہ ان کے موکل نے معیار کے سارے درجے پورے کیے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے ابھی تک ایک کام نہیں کیا
اور وہ پرچہ درج کرانا ہے، جو جو کام انہوں نے کیے ہیں اس پر پرچہ درج کرانا چاہیے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شاہد حامد آپ نے پیسے دینے ہیں کہ نہیں؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ پیسے دینے ہیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جتنا پانی نکالا ہے، اس کے پیسے دیں۔دوران سماعت جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ کینیڈا سے زیادہ پانی کے ذرائع کسی کے پاس نہیں لیکن وہاں بھی پانی مفت نہیں جبکہ یہاں صنعتیں استعمال کے لیے پانی مفت لے رہی ہیں۔اس پر چیف جسٹس نے منرل واٹر کمپنیوں کے وکلا سے مکالمہ کیا کہ
آپ اس ملک کو ایتھوپیا بنا دیں گے، جس پر وکیل شاہد حامد نے کہا کہ آپ ٹیکس لگا دیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بنیادی خام مال کی قیمت تو ادا نہیں کر رہے۔سماعت کے دوران عدالتی کمیشن کے سربراہ احسن صدیقی نے بتایا کہ بوتل بند کمپنی ہر ماہ 7 ارب لیٹر پانی نکالتے ہیں اور ڈیڑھ ارب لیٹر گندہ پانی ایکوافر میں ڈالتے ہیں۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ منرل واٹر کمپنیاں عوام کو بیوقوف بنا رہی ہیں، کمپنیوں کو پانی کی قیمت ہر صورت ادا کرنی ہوگی، 7 ارب روپے ماہانہ کے حساب سے سالانہ 84 ارب بنتے ہیں، اس حساب سے 9 سال میں 756 ارب روپے منرل واٹر کمپنیوں سے جمع ہونگے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ منرل واٹر کمپنیوں سے پیسہ مل جائے تو ڈیم کے لیے کسی سے رقم لینے کی ضرورت نہیں، کمپنیاں 50 روپے کی بوتل کا حکومت کو ایک روپیہ نہیں دیتی، عوام کو چاہیے کہ منرل واٹر کمپنیوں کا بائیکاٹ کریں، گھڑے کا پانی کمپنیوں کے پانی سے صاف ہوتا ہے کمپنیاں ہمارے بچوں کی زندگیاں برباد کر رہی ہیں۔عدالت کے ریمارکس پر نجی کمپنی کے وکیل نے بتایا کہ ایک لیٹر بوتل کیلئے 4 لیٹر پانی درکا ہوتا ہے، کمپنیوں نے پانی کا ایک قطرہ بھی چوری نہیں کیاجس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کمپنیاں پانی کا ایک پیسہ نہیں دیتیں، یہ چوری نہیں تو کیا ہے، کمپنیاں آلودہ پانی زیر زمین میں ڈال دیتی ہیں۔دوران سماعت احسن صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ امیگرو سے روزانہ 27 لاکھ روپے لیے جاسکتے ہیں،
پنجاب فوڈ اتھارٹی بہت اچھا کام کر رہی ہے، ان کے پاس جو آلات ہیں وہ سندھ اور خیبرپختونخوا میں نہیں۔اس پر نمائندہ پنجاب فوڈ اتھارٹی نے بتایا کہ عدالت تمام کمپنیوں کو ہدایت کریں کہ فوڈ اتھارٹی کے ساتھ رجسٹرڈ کریں۔اس پر ڈی جی ماحولیات نے کہا کہ لیبل پر لکھ دیتے ہیں کہ منرل ڈالے ہیں جبکہ منرل ڈالنے کا دعوی بھی فراڈ ہے، عدالتی کارروائی پر یہ فراڈ بے نقاب ہورہا ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اصل میں یہ سب جھوٹ ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ کمپنیوں پر پانی کے استعمال پر ایک روپے اور پانی کے ضائع کرنے پر قیمت 3 لیٹر ہونی چاہیے اور قوم کیساتھ دھوکا دہی بند ہونی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ایک پانی بیچنے والے کی 16 کینال کی کوٹھی ہے، اس کے اندر بینٹلے کار کھڑی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز بتائیں، اس معاملے کو ٹھیک کیسے کرنا ہے،ہم قوم کا پانی اور پیسہ صائع نہیں ہونے دیں گے۔