اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)وزیراعظم عمران خان نے چند روز قبل سینئر صحافیوں کیساتھ ملاقات میں بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ جو لیڈر یوٹرن نہ لے وہ لیڈر ہی نہیں ، اپنے اس بیان کی تائید میں ایک روز بعد دوبارہ عمران خان نے یوٹرن کو جائز قرار دیتے ہوئے کہا کہ عظیم مقاصد کی تکمیل کیلئے یوٹرن لینا جائز ہے۔ عمران خان کےیوٹرنز کے حوالے سے بیانات پر ملک بھر میں
صحافی و سیاسی حلقوں میں ان پر شدید تنقید کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ ایسے میں ملک کے معروف صحافی ، تجزیہ کار اور کالم نگار سلیم صافی نے اپنے کالم میں وزیراعظم عمران خان اور پی ٹی آئی اور اس کی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ سلیم صافی اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ نیا پاکستان تو نہیں بنا سکے لیکن اس کے دعویدار نئی ڈکشنری ایجاد کرنے لگ پڑے ہیں۔ پہلے انصاف کی نئی تعریف کی گئی ۔ دوسروں کے لئے جو کام ناجائز ، وہی پی ٹی آئی والوں کے لئے جائز ۔ نوازشریف کی بیرون ملک جائیداد ناجائز اور جہانگیر ترین کی جائز ۔ دبئی میں دوسرے پاکستانیوں کی جائیدادناجائز اور علیمہ خانم کی جائز ۔یہ ہے انصاف کی نئی تعریف۔ پھر احتساب کی نئی تعریف کی گئی ۔ بندہ پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ (ن) میں ہو تو لائق احتساب لیکن پی ٹی آئی میں آئے تو اعظم سواتی اور فہمیدہ مرزا کیوں نہ ہو، معصوم قرار پائیں ۔ پھر ذاتیات کی نئی تعریف کی گئی ۔ مخالف سیاستدانوں یا پھر اخبار نویسوں کا معاملہ ہو تو ذاتی گالم گلوچ اور القابات بھی ذاتیات میںشمار نہیں ہوتے۔ دوسروں کو چور، ڈاکو، لفافہ سب کچھ کہنا ذاتیات نہیں لیکن پی ٹی آئی والے کو ذاتی کرتوت یاد دلادیں تو ذاتیات کا شور بلند ہوتا ہے ۔ پھر دھاندلی کی نئی تعریف کی گئی ۔ گزشتہ انتخابات میں باقی ملک میں انتخابات شفاف نہیں دھاندلی زدہ تھے کیوں کہ دوسری پارٹیاں جیتی تھیں لیکن خیبر پختونخوا میں
شفاف تھے کیونکہ پی ٹی آئی جیتی تھی ۔ اب کی بار تمام سیاسی اورمذہبی جماعتوں کا اجماع ہے کہ انتخابی بے ضابطگیاںہوئی ہیں لیکن چونکہ پی ٹی آئی جیتی، اس لئے سب ٹھیک ہے ۔ گویا دھاندلی کی نئی تعریف یہ ہے کہ جہاں پی ٹی آئی ہارے وہاں دھاندلی ہوئی ہوگی اور جہاں جیتے وہاں شفاف انتخابات ہوئے ہوں گے ۔ پھر بھیک کی نئی تعریف کی گئی ۔ زرداری یا نواز شریف بیرون ملک
سے امداد مانگے تو بھیک اور عمران خان مانگے تو کارنامہ ۔ علیٰ ہذا القیاس ۔ لیکن جاتے جاتے معاملہ یہاں تک پہنچا کہ اب لیڈر کی بھی نئی تعریف ہونے لگی ۔ ارشاد ہوا کہ جو یوٹرن نہ لے وہ لیڈر نہیں بن سکتا اوریوٹرنز لینے والا ہی لیڈر کہلاتا ہے ۔ ظاہر ہے یوٹرن اتنے لئے کہ یوٹرن خان مشہور ہوئے اور اب چونکہ یوٹرنز لینا تو چھوڑ نہیں سکتے اس لئے لیڈر کی تعریف ہی بدلی گئی ۔
سلیم صافی مزید ایک جگہ لکھتے ہیں کہ تاہم نئے پاکستان کے نئے وزیراعظم کی لیڈر کی نئی تعریف کی رو سے قائداعظم محمد علی جناح لیڈر قرار پاتے ہیں ، گاندھی جی اور نہ خان عبدالغفار خان ۔ نئی تعریف کی رو سے اصل لیڈر جنرل محمد ضیاء الحق قرار پاتے ہیں ۔ جنہوں نے نوے دن میں انتخابات کرانے کا وعدہ کیا تھا لیکن پھر یوٹرن لے کر نو سال تک اقتدار پر قابض رہے ۔ ان کی تعریف کی
رو سے جنرل پرویز مشرف لیڈر قرار پاتے ہیں کیونکہ جب میاں نوازشریف کے دور میں واجپائی لاہور آئے تو انہوں نے ان مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے لئے جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتوںکے کارکنوں کو میدان میں اتارا لیکن پھر جب خود اقتدار میں آئے تو یوٹرن لے کر اسی واجپائی سے مذاکرات کی بھیک مانگتے رہے ۔ اس تعریف کی رو سے تو میاں نوازشریف لیڈر قرار پاتے ہیں
کیونکہ وہ کچھ لوگوںکا مہرہ بن کر بے نظیر بھٹو کو غدار ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن پھر جب خود مار پڑی تو یوٹرن لے کر اسی بے نظیر بھٹو کے ساتھ میثاق جمہوریت پر دستخط کربیٹھے ۔ اس تعریف کی رو سے تو آصف علی زرداری لیڈر قرار پاتے ہیں جنہوں نے اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دی لیکن جب مار پڑی تو یوٹرن لے کر اینٹ سے اینٹ لگانے لگ گئے اور
ان قوتوں کا مہرہ بن گئے جن کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکیاں دیا کرتے تھے ۔ پھر تو عمران احمد خان نیازی صاحب کے لیڈر الطاف حسین صاحب ہونے چاہئیں جو ان سے پہلے یوٹرنزلینے کے لئے مشہور تھے ۔پھر تو چوہدری شجاعت حسین پاکستان کے سب سے بڑے لیڈر ہیں۔ جو ضیاء کے عروج میں ان کے ساتھ تھے ۔ وہ قبر میں چلے گئے اور ان کی عمر میاں نوازشریف کو لگ گئی
تو یوٹرن لے کر ان کے ساتھ جاملے ۔ ان پر مشکل آئی تو یوٹرن لے کر جنرل پرویز مشرف کے مداح بن گئے اور ان کو عمر بھر وردی میں صدر منتخب کرنے کے لئے مگن رہے ۔ ان کا زوال آیا تو یوٹرن لے کر آصف زرداری کے ساتھ بیٹھ گئے اور اب ایک اور یوٹرن لے کر خود یوٹرن خان کے اتحادی ہیں ۔ کیا بہتر نہیں ہوگا کہ وزیراعظم صاحب ، چوہدری شجاعت حسین کے ہاتھ پر بیعت کرلیں ۔
یوٹرنز کے لحاظ سے شاید وہ ان سے بڑے لیڈر ہوں ۔بہت سمجھایا تھا کہ ضروری نہیں کہ کرکٹ کی پچ پر مسلسل یوٹرنز لینے والا لیڈر ہوسکتاہو لیکن کچھ لوگ ان کو لیڈر بنانے اور ثابت کرانے پر مصر تھے ۔ اب دیکھتے ہیں وہ لوگ ان سے متعلق کب یوٹرن لیتے ہیں ۔ان کو لیڈر اور وزیراعظم بنانے کی مشق میں پاکستان یوٹرن لے کر اسی کی دہائی میں توواپس چلا گیا لیکن ہمیں ڈر ہے کہ یوٹرنز لے لے کر کہیں وہ پاکستان کو ساٹھ کی دہائی میں واپس نہ لے جائیں ۔ب