اسلام آباد(نیوز ڈیسک) نواز شریف کا قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر پر استثنیٰ کے بعد قطری خط سے بھی لاتعلقی کا اظہار ، احتساب عدالت میں 151سوالات میں سے 89کے جواب دے دئیے۔ تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف آج العزیزیہ فلیگ شپ ریفرنس میں احتساب عدالت میں پیش ہوئے جہاں انہوں نے سوالات کے جوابات جمع کرائے، نواز شریف کے جوابات کو
عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔ نواز شریف کا عدالتی سوالات کے جواب میں کہنا تھا کہ نواز شریف نے کہا کہ میرا قطری خطوط سے کوئی تعلق نہیں۔میرا نام کہیں بھی کسی بھی دستاویزات میں شامل نہیں ہے جب کہ میں کسی بھی ٹرانزیکشن کا حصہ نہیں رہا۔سماعت کے آغاز پر نواز شریف نے احتساب عدالت کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے جواب میں کہا کہ 1999 کے مارشل لاء کے بعد ہمارے کاروبارہ کا ریکارڈ قبضے میں لیا گیا اور اس حوالے سے شکایت بھی درج کرائی لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔نواز شریف نے کہا کہ جج صاحب ہمارے ساتھ یہ صرف 1999 میں نہیں ہوا، یہ ہمیشہ ہوتا آیا ہے، ہمارے خاندان کی درد بھری کہانی ہے۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ 1972 میں پاکستان کی سب سے بڑی اسٹیل مل اتفاق فاؤنڈری کو قومیا لیا گیا، کسی نے نہیں پوچھا کہ کھانے کے پیسے بھی آپ کے پاس ہیں یا نہیں۔نواز شریف نے کہا کہ میں تو 1972 میں سیاست میں بھی نہیں تھا، میں نے 80کی دہائی میں سیاست شروع کی۔گزشتہ روز سماعت کے دوران نواز شریف نے 50 میں سے 44 سوالات کے جواب دئیے جس کے بعد انہیں مزید سوالات دئیے، احتساب عدالت کی جانب سے سابق وزیراعظم وزیراعظم سے مجموعی طور پر 151 سوالات پوچھے گئے ہیں۔سوال و جواب کے دوران نواز شریف نے اپنی قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر پر ایک مرتبہ پھر استثنیٰ مانگا
اور کہا کہ قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر کسی عدالت کے سامنے پیش نہیں کی جاسکتی، آئین کے آرٹیکل 66کے تحت قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر کو استثنیٰ حاصل ہے۔یاد رہے کہ احتساب عدالت نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس کی سماعت کر رہی ہے، اس سے قبل احتساب عدالت نے انہیں ایون فیلڈ ریفرنس میں 11 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ سابق وزیراعظم کے خلاف ٹرائل مکمل کرنے کے لیے فاضل جج ارشد ملک کو سپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی ڈیڈ لائن 17 نومبر کو ختم ہورہی ہے۔احتساب عدالت کی جانب سے ٹرائل کی مدت میں ساتویں بار توسیع کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کا بھی امکان ہے۔