پیر‬‮ ، 18 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

ۜمودی، ٹرمپ اور عمران خان کیسے اقتدار تک پہنچے، ایسی فضا بنائی جارہی ہے جس میں۔۔مزید خطرناک وقت ابھی آنے والا ہے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے سنسنی خیز انکشافات کر دئیے

datetime 3  ‬‮نومبر‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)مسلم لیگ ن کی حکومت میں سابق وفاقی وزیر برائے مالیاتی امور رہنے والے ماہر معیشت مفتاح اسماعیل کا ایک کالم روزنامہ جنگ میں شائع ہوا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ 2000 ء میں بھارتی ریاست گجرات میں ہونے والے مسلم کش فسادات نے تقریباً 2000 مسلمانوں کی جان لے لی۔ اُن فسادات کو مسلمانوں کا ’’سیاسی بنیادوں پر منظم قتل ِعام ‘ ‘ قرار دیا گیا تھا۔

بہت سے آزاد مبصرین نے ان کا الزام اُس وقت کے گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی پرعائد کیا تھا کہ یا تو اُنھو ں نے فسادکے شعلوں کو ہوا دی ، یا جان بوجھ کر غفلت کا مظاہرہ کیا جب کہ مسلمانوں کو شہید کیا جارہا تھا۔ اس کے باوجود 2014 ء میں نریندر مودی، جن کی سیاسی شناخت ہندومت کی بالادستی پریقین تھا، بھارت کے وزیر ِاعظم منتخب ہوگئے ، اور بھارت ایک ایسا ملک ہے جہاں مذہبی اقلیتیں ملکی آبادی کا بیس فیصد ہیں۔2016 ء میں فلپائن میںدائیں بازو کے رہنما روڈریگو ڈیوٹرٹ منتخب ہوگئے ۔ اُن پر سینکڑوں عام مجرموں کو ماورائے عدالت ہلاک کرنے کا الزام تھا۔ اُن کی نامناسب زبان کی وجہ سے عالمی رہنمائوں سے اُن کے تعلقات بھی خراب تھے۔ امریکہ میں ووٹروں نے 2016 ء میں ایک سفید قوم پرست لیڈر ، ڈونلڈ ٹرمپ کو صدر منتخب کرلیا، حالانکہ شاید ہی کوئی ہفتہ ایسا گزرتا جب وہ خواتین یا کسی اقلیتی گروہ یا کسی عالمی رہنما کی توہین نہیں کرتے تھے ۔ اُن کی کابینہ کے وزیر تک اُنہیں ایک ایسا شخص قرار دے چکے ہیں جن کی فہم و فراست چھٹے گریڈ کے طالب علم سے زیادہ نہیں۔ اُن کی انتخابی مہم سفید فام نسل پرستی کے انتہائی جذبات اور تارکین ِوطن سے نفرت سے عبارت تھی۔برازیل میں ووٹروں نے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے جیئر بولسو نارو کو صدر منتخب کرلیا ہے۔ اُنھوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران خواتین سے بیزاری اور ہم جنس پرستوں

اور شہری آزادیوں سے نفرت کا بھرپور اظہار کیا۔ یورپ میں بھی دائیں بازو کے نظریات میں رچی بسی قوم پرست سوچ انتخابی عمل پر چھا رہی ہے ۔ فرانس میں میرین لی پن انتہائی قوم پرست سوچ رکھنے والی رہنما ہیں ۔ وہ فرانس میں ہونے والے گزشتہ صدارتی انتخابات میں چونتیس فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے فائنل رائونڈ تک پہنچ گئیں۔ آسٹریا میں بھی دائیں بازو کے نوجوان رہنما سبسطین کرز

چانسلر منتخب ہوگئے ہیں۔ بر طانیہ میںغیر ملکیوں کی آمد کا خوف ووٹروں کے ذہن پر چھایا ہوا تھا جب اُنھوں نے یورپی یونین سے نکلنے کے لیے بریگزٹ کے لیے ووٹ ڈالا۔پاکستان میں عمران خان کی پی ٹی آئی نے رواں سال ہونے والے انتخابات جیت لیے ۔ 1997 ء سے لے کر 2010 ء تک ایک گمنام پارٹی، اور پھر 2013 ء کے عام انتخابات میں بمشکل 33 نشستیں جیتنے والی پی ٹی آئی آج اقتدار میں ہے ۔

یہ الزام بار ہا عائد کیا گیاکہ انتخابات کے موقع پر آرٹی ایس کے اچانک بیٹھ جانے، اور پھر گنتی کے دوران پولنگ ایجنٹس کو باہر نکال دینے سے اصل فرق پڑا ۔ اوریقیناًتحریک لبیک نے جو ووٹ حاصل کیے، اُس سے پی ٹی آئی کوفیصلہ کن حد تک فائدہ پہنچا۔ لیکن اس سے بھی انکار نہیں کہ پی ٹی آئی نے 2013ء کی نسبت 2018 ء میں بہت زیادہ ووٹ حاصل کیے ، اور پھر تحریک ِ لبیک فیکٹر

نے اُسے فتح یاب بنادیا۔ تو کیا یہ فتح پاکستانی سیاست کے دائیں جانب جھکائو کو ظاہر کرتی ہے ؟منیلا سے لے کر برازیل اور واشنگٹن سے لے کر نئی دہلی تک دائیں بازو کے نظریات اور غیر مقامی افراد سے نفرت میں شدت کا اظہار نمایاں ہے ۔ دوسری جنگ ِعظیم کے بعد دائیں بازو کے نظریات کا اتنا واضح اظہار کبھی دیکھنے میں نہیں آیاتھا۔ ایک سوشیالوجسٹ دوست کا کہنا ہے،

’’ دائیں بازو کی مقبولیت کے پیچھے بہت سے عوامل کارفرماہیں، جیسا کہ اشرافیہ کی طرف سے معاشی، ثقافتی اور مذہبی حرکیات میں عدم تحفظ کااحساس اجاگرکرنا، موجودہ سیاسی جماعتوں کا کھوکھلا پن نمایاں ہونا، اوردرست اور غلط معلومات کا فرق مبہم ہوجانا۔ ‘‘اُن کے نزدیک ’’عام ووٹر سماجی جمود اورآمرانہ رویوں کی تابعداری کا رجحان رکھتے ہیں۔ سیاسی کھلاڑی اُن رویوں کو مہمیز دیتے ہیں۔

موقع ملنے پر ان رویوں کو بھڑکاکر اپنے لیے کامیابی کی راہ ہموار کرنا مشکل نہیں ہوتا۔ اگرچہ یہ رویے ہر وقت بھڑکا ئے جاسکتے ہیں، لیکن کامیابی کے لئے کچھ ستارے بھی موافق ہونے چاہئیں۔ ‘‘پول سرویز کرنے والے ایک دوست اس بات میں اضافہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’ اگر آپ دنیا بھر میں دائیں بازو کے نظریات کا پرچار کرنے والوں کی مقبولیت کی مشترکہ وجہ تلاش کریں تو آپ کو پتہ چلے گا

کہ وہ شناختوں کو ابھار کر غیر معمولی کامیابی حاصل کرلیتے ہیں۔ دوسری طرف بائیں بازو کے ساتھ جڑے رہنے والے اتنے کامیاب نہیں ہوتے کیونکہ وہ اقدار کے ساتھ جڑے رہنے کی بات کرتے ہیں۔‘‘ ان میں سے سب سے زیادہ کامیاب وہ رہتے ہیں جو اقدار اور شناخت کی بیک وقت بات کریں، جیسا کہ تحریک ِ لبیک کے خادم حسین رضوی، اور جن کے پیغام میں جذباتیت کا تڑکا زیادہ ہو۔

ایسی تحریکوں کو ختم کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ٹرمپ کے موقف کو اُس وقت تک تقویت نہیں مل سکتی تھی جب تک اس میں سفید فام قوم پرستی کی عصبیت شامل نہ ہوجاتی۔تو یہ سوال کہ صرف دائیں بازو کے نظریات پھیلانے والے کیوں کامیاب ہیں؟ بائیں بازو والے کیوں نہیں؟ ایک وکیل دوست نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ، ’’روایتی طور پر بائیں بازو کے پاس موجود حل کو

عوام زیادہ اہمیت کا حامل نہیں سمجھتے۔ اس سے کوئی تحریکیں نہیں اٹھ سکتیں کیونکہ اس میں جذباتی حرکیات شامل نہیں ہوتیں۔ برازیل میں سابق صدر لیولا سے نئے فسطائی لیڈر، مسٹر بولسونارو تک کا سفر آپ کو بتائے گا کہ بائیں بازو میں اعتماد کا فقدان ہے ۔ ‘‘ایک اور دوست کا کہنا ہے کہ ’’ چونکہ بایاں بازو تبدیلی کی کوئی مربوط تھیوری پیش نہیں کرتا، تو دائیں بازو اس خلا کو پُر کردیتا ہے ۔

وہ ایک مستحکم دنیا کے خواب دکھا کر اپنی جگہ بنالیتا ہے ۔ ‘‘یہ معروضات اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ عالمی سطح پر دائیں بازو کو کیوں پذیرائی مل رہی ہے ۔ لیکن عمران خان کی کامیابی کے پیچھے کیا راز ہے ؟ اس پر ایک اور دوست کا کہنا تھا کہ ، ’’لوگوں کو بدعنوانی اور انصاف کی عدم دستیابی کا مسئلہ ہے ۔ وزیر ِاعظم عمران خان بہت دیر سے ان مسائل کے حل کا وعدہ کرتے رہے ہیں۔ لیکن اُن کے قول وفعل کا تضاد عیاں ہورہا ہے ۔ اس کے باوجود اُنہیں دھوکے باز نہیں سمجھا جارہا۔

ان کی جگہ کوئی اور بہت آسانی سے اپنی ساکھ کھو دیتا، یا بیرونی کھلاڑی اُس کی پشت پناہی سے دست کش ہوجاتے ۔‘‘ ایک اور دوست کا کہنا تھا، ’’میرے الفاظ یاد رکھنا، عمران خان کی آمد پاکستان میں دائیں بازو کی کامیابی نہیں بلکہ یہ مرحلہ ابھی مستقبل میں ہے ۔ لیکن اس کی طرف پیش قدمی جتنے ڈرامائی انداز میں ہورہی ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے بس میں نہیں۔

‘‘ایک وکیل دوست نے وضاحت کی ’’ نظریات کے فروغ کی اس دنیا میں مغرب میں شناخت کا مسئلہ اجاگر کیا جارہا ہے ، تو دنیا کے ہمارے حصے میں بدعنوانی اور گناہ گاروں کے خلاف جذبات بھڑکائے جارہے ہیں۔ ‘‘پول سرویز کرنے والے دوست نے اضافہ کیا ’’مذہبی جذبات کی بنیاد پر سیاست کی کامیابی اس امرمیں مضمر ہے کہ اس کا پیش کردہ مثالی نظام ہمیشہ ایک خواہش کے طور پر

موجود رہا ہے ، لیکن اسے کبھی حاصل نہیں کیا گیا۔ چنانچہ اس کی طرف پیش قدمی کرنے کی تحریک موجود رہتی ہے ۔ مذہبی طبقات اسی خواہش کو جذباتی لہر میں تبدیل کردیتے ہیں۔ ‘‘چنانچہ اگردائیں بازو کی کامیابی کو وسیع پیرائے میں دیکھا جائے تو مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان محض ایک معمول کے طور پر استعمال ہورہے ہیں۔ ان کو سامنے لا کر ایسی فضا بنائی جارہی ہے

جس میں انتہائی جذباتیت کے لیے قدم رکھنا ممکن ہوجائے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ مزید خطرناک وقت ابھی آنے والا ہے ۔اگر میں اپنے فاضل دوستوں کو قنوطی ، اور بے بنیاد خدشات کا شکار افراد سمجھ لوں اور دنیا ، بالخصوص پاکستان کے بارے میں پر امید رہوں مجھے کہنے کی اجازت دیجیے کہ پاکستان میں سیاسی توازن ہی اسے ایک متحرک، جمہوری اور ترقی پسند معاشرہ دے سکتا ہے ۔ اگر ہم اس سے قدرے بھٹک گئے ہیں تو ہمیں اپنی راہیں درست کرنا ہوں گی۔

موضوعات:



کالم



بس وکٹ نہیں چھوڑنی


ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

ملک کا واحد سیاست دان

میاں نواز شریف 2018ء کے الیکشن کے بعد خاموش ہو کر…