اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)معروف صحافی محمد بلال غوری اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ ایک سیاستدان کے پاس تین ہیٹ ہونے چاہئیں، ایک اچھالنے کیلئے، ایک وقت گزاری کیلئے اور ایک منتخب ہو جانے کی صورت میں خرگوش نکالنے کے لئے۔ (امریکی مصنف اور شاعر، کارل اسینڈ برگ)۔کارل اسینڈ برگ نے شاید امریکہ میں رائج سیاست کے پیش نظر یہ بات کہی ہو گی
ورنہ پاکستان جیسے غیر ترقی یافتہ ممالک میں تو سیاستدانوں کے پاس عوام کو لُبھانے کیلئے لاتعداد ہیٹ ہونے چاہئیں۔ اقتدار میں آنے کیلئے جانے کیا کیا پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں، اپوزیشن میں رہتے ہوئے حکومت کو غلط ثابت کرنے کیلئے ہتھیلی پر سرسوں جمانا پڑتا ہے، انتخابی منشور میں ستاروں پر کمند ڈالنے کی باتیں ہوتی ہیں، اس دریا پر بھی پُل بنانے کا وعدہ کر لیا جاتا ہے جس کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا۔ کسی سیاستدان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک جلسے کے دوران عوام نے بتایا کہ ان کے علاقے میں میٹرنٹی سینٹر نہیں ہے، انہوں نے سوچے سمجھے بغیر اعلان کر دیا کہ میں جیت گیا تو یہاں ایک نہیں دو میٹرنٹی سینٹر بنوائوں گا، ایک خواتین کیلئے ایک حضرات کے لئے۔ انتخابی مہم کے دوران غیر حقیقی وعدے کرنے کا یہ چلن محض پاکستان تک محدود نہیں بلکہ دنیا بھر کی سیاسی جماعتیں ووٹ لینے کیلئے ایسے ہی سبز باغ دکھاتی ہیں۔ آپ ملائیشیا کی مثال لے لیں جہاں اسی سال انتخابات ہوئے اور اپوزیشن اتحاد نے سابق وزیراعظم مہاتیر محمد کی قیادت میں کامیابی حاصل کی۔ وزیراعظم نجیب رزاق پر کرپشن اور آمدنی سے زائد اثاثہ جات کے الزامات عائد ہوئے تو عملی سیاست سے سبکدوش ہو جانے والے مہاتیر محمد ایک بار پھر میدان میں آگئے اور 9مئی 2018ء کو ہونے والے انتخابات میں عوام نے 93سالہ معمر سیاستدان کی قیادت پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا۔
اب سب سے بڑا چیلنج عوامی توقعات کے ناقابل تسخیر پہاڑ کو سر کرنا تھا۔ کارل اسینڈ برگ کے الفاظ مستعار لوں تو مہاتیر محمد کو اب اپنے ہیٹ میں سے خرگوش نکال کر دکھانا تھا۔ انتخابی مہم کے دوران بلند بانگ دعوے کئے گئے۔ منشور میں بتایا گیا کہ مہاتیر محمد کے برسر اقتدار آنے کی صورت میں سب مشکلیں آسان ہو جائیں گی۔ ان کی پارٹی نے ابتدائی 100دن کا جو منشور دیا
اس میں کم از کم 10ایسے بڑے اہداف تھے جن کا حصول تقریباً ناممکن تھا۔ مہاتیر محمد منجھے ہوئے سیاستدان ہیں اور پہلے بھی 22سال تک وزیراعظم کا منصب سنبھال چکے ہیں، انہیں معلوم تھا کہ عوامی توقعات اور خواہشات کے اس غبارے میں سے ہوا نہ نکالی گئی تو یہ مسلسل پھولتا چلا جائے گا اور بہت جلد پھٹ جائے گا چنانچہ مہاتیر محمد نے حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے صاف صاف
کہہ دیا کہ ہمیں توقع نہیں تھی کہ جیت جائیں گے، اس لئے 100دن میں ملک کی تقدیر بدلنے کا وعدہ کر لیا۔ بطور وزیراعظم حلف اٹھانے کے چند روز بعد ہی ایک تقریب سے خطاب کے دوران وعدوں کی تکمیل سے متعلق سوال کیا گیا تو مہاتیر محمد نے کہا ’’جب آپ حکومت سے باہر ہوتے ہیں تو بطور اپوزیشن تنقید کرنا بہت آسان ہوتا ہے مگر حکومت میں آکر وعدے پورے کر نا بہت مشکل ہوتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم نے کبھی سوچا ہی نہ تھا کہ ہم الیکشن جیت جائیں گے۔ ہمارا خیال تھا کہ ہمیں شکست ہو گی اسی لئے ہم نے بہت لمبا چوڑا انتخابی منشور طے کیا مگر وہ انتخابی منشور جو ہم نے حکومت کو ہزیمت میں مبتلا کرنے کیلئے بنایا تھا اب ہمارے لئے پریشانی کا باعث بن رہا ہے کیونکہ اس میں شامل کی گئی تمام فضول باتیں ہمیں پوری کرنا پڑ رہی ہیں۔ مسئلہ یہ بھی ہے
کہ یہ اپوزیشن کی حکومت ہے جو ناتجربہ کار ہے۔ یہ اپوزیشن الیکشن جیتنے کی کوشش کر رہی تھی مگر مسلسل ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ کامیابی تو مل گئی ہے مگر انہیں یہ معلوم نہیں کہ حکومت کیسے چلانی ہے۔ اس لئےمیں آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ یہ سب 100دن میں ممکن نہیں‘‘۔پاکستان اور ملائیشیا کے سماجی اور معاشی ہی نہیں سیاسی حالات میں بھی
بہت مطابقت اور مماثلت ہے۔ تحریک انصاف نے بھی ملائیشیا کے Pakatan Harapanکی طرح غیر متوقع طور پر کامیابی حاصل کی اور اب اس سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ہیٹ سے خرگوش نکالنے کا جو وعدہ کیا گیا تھا وہ پورا کیا جائے۔ البتہ دونوں سیاسی جماعتوں کے طرزِ عمل میں زمین آسمان کا فرق دکھائی دیتا ہے۔ عمران خان ملائیشیا کے مدبر مہاتیر محمد جیسی حکمت و تدبر کا مظاہرہ نہیں کر سکے۔
اگر وہ قوم سے کئے گئے پہلے خطاب میں ہی مہاتیر محمد کی طرح یہ واضح کر دیتے کہ پی ٹی آئی کے انتخابی وعدے بہت غیر حقیقی اور بعض باتیں قطعی طور پر ناقابل عمل ہیں، ہاں البتہ ہم اس ایجنڈے کو سیاسی حقائق سے ہم آہنگ کرکے مکمل کرنے کی کوشش کریں گے تو شاید آج یہ صورتحال نہ ہوتی۔ حکومت چلانے اور اپنا ایجنڈا آگے بڑھانے کیلئے بردباری اور تحمل سے کام لیتے ہوئے
سیاسی مخالفین سے بھی ہاتھ ملانا پڑتا ہے۔ کسی دور میں انور ابراہیم پر غیر اخلاقی الزامات عائد کرتے ہوئے انہیں جیل بھیج دیا گیا اور اب وہی انور ابراہیم مہاتیر محمد کے دستِ راست ہیں مگر عمران خان اب بھی شعلہ بیانی سے کام لیتے دکھائی دیتے ہیں اور جب بھی بات کرتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے ابھی تک خود کو اپوزیشن لیڈر سمجھ رہے ہیں۔عمران خان سعودی عرب سے امدادی پیکج لینے کے
بعد جن دو ممالک کی طرف دیکھ رہے ہیں ان میں چین اور ملائیشیا بھی شامل ہیں اور آئندہ چند ہفتوں میں ان دونوں ممالک کے دورے متوقع ہیں۔ غالباً پہلی منزل چین ہے۔ اپنے ممدوح مہاتیر محمد کی طرح عمران خان کو بھی سی پیک یا اقتصادی راہداری منصوبوں پر تحفظات ہیں؛ تاہم ان کا اظہار کرنے میں ہچکچاہٹ سے کام لیا جا رہا ہے۔ مہاتیر محمد نے دورۂ چین کے موقع پر بیجنگ میں
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے سے علیحدگی کا اعلان کیا۔ 20ارب ڈالر مالیت کے دو بڑے منصوبے جن پر کام جاری تھا، انہیں منسوخ کر کے کام روک دیا گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان کس طرزِ عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ چین کے بعد عمران خان ملائیشیا جائیں گے اور میرا خیال ہے کہ وہاں سے امدادی پیکج نہ بھی لے پائیں تو مہاتیر محمد سے یہ وژن ضرور مستعار لیں کہ ذاتی اَنا کے خول سے نکل کر حقیقت پسندی سے پیش قدمی کیسے کی جاتی ہے۔