اسلام آباد(آن لائن)اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزول جسٹس کی معزولی کے بعد پولیس نے دو سال بعد طالبات اغواء کیس کی فائل بند کرنے کا فیصلہ کرلیا،فاضل جج نے ملزم کی درخواست ضمانت پر اخراج کا حکم جاری کرنے سے گریز کیا،وزارت داخلہ،سینئر انتظامیہ اور پولیس کے افسران کی سرزنش اور میڈیا کوریج کیلئے فاضل جج نے حقائق سے آنکھیں موڑ لیں،دوسری بار اخبار اشتہار کے ذریعے آگاہی مہم کے بعد کیس کو داخل دفتر کردیا جائے گا۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کے رورل سرکل کے تھانہ کھنہ سے2016ء میں پانچویں اور ساتویں کلاس کی طالبات کو اغواء کرلیاگیا،روایتی انداز میں پولیس نے مقدمہ درج کرنے سے گریز کیا۔ایک ماہ بعد پولیس نے مقدمہ درج کرکے ملزمان کی گرفتاریاں عمل میں لائیں۔ٹرائل کورٹ نے مرکزی ملزم کی ضمانت خارج کردی۔بعد ازاں ملزم نے عدالت عالیہ اسلام آباد سے رجوع کرلا۔فاضل جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے روایتی نظام عدلیہ کو پس پشت ڈالتے ہوئے پولیس افسران کی سرزنش شروع کردی۔عدالتی حکم پر مدعی مقدمہ کے گھر کے فرش تک کی کھدائی کی گئی۔عرب امارات،افغانستان سمیت کئی سفارتخانوں کو تحریری طور پر آگاہ کیا گیا۔فاضل جج نے قوم کی بیٹیوں کو اپنی بیٹیاں قرار دیا،لیکن ملزم کی ضمانت خارج کرنے سے گریز کیا۔سی آئی اے پولیس نے تمام تر وسائل بروئے کار لاتے ہوئے طالبات کی تلاش شروع کردی۔پولیس کی جانب سے 423کی کئی تفتیش پر مبنی کتابیں بھی کورٹ میں جمع کروائی ،423 کی کتابوں کا مطالعہ کئے بغیر روایتی انداز میں فاضل جج نے کیس کو مختلف زاویوں کے گرد گھومانے کی کوشش کی،پولیس نے آئے روز عدالتی سرزنش کے بعد کام نہ کرنے کی ٹھان لی۔ذرائع کے مطابق پولیس نے ابتدائی تفتیش میں ہی تمام تر حقائق سے منہ پھیرتے ہوئے سیاسی مداخلت کی وجہ سے چپ سادھ لی،مرکزی ملزم (مدہو) نے ابتدائی تفتیش میں طالبات کو سامان کے ساتھ افغانستان چھوڑنے کا اعتراف کیا۔فاضل جج نے تمام تر پولیس وسائل اور ماہرین کی سرزنش کی۔
کئی تھانوں کے انسپکٹرز کو بلا کر کیس کی سماعت ملتوی کی جاتی رہیں،لیکن فاضل جج نے کیس کے پہلے تفتیشی افسر کو نوٹس جاری کرنے سے نہ صرف گریز کیا بلکہ پولیس میں موجود کالی بھیڑوں جن کے خلاف انسانی سمگلنگ میں ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کے طلبی کے نوٹسز جاری نہیں کئے گئے۔اسلام آباد پولیس کے سینئر افسران دو سال میں طالبات کا کھوج نہیں لگا سکی۔بعد ازاں عدالت نے ایک کروڑ روپے انعام کے طور پر رقم مختص کردی۔
مدعی مقدمہ اشرف نے آن لائن کے رابطے پر الزام عائد کرتے ہوئے بتایا کہ میں شروع دن سے کہہ رہا ہوں کہ بچیوں کو اغواء کرکے افغانستان لے کر جانے والا مدہو ہی ہے لیکن پولیس اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی۔وہ ابھی بھی کھلے عام دھمکیاں دیتا ہے میرے پڑوس میں رہنے کے باوجود پولیس نے اس کو ہاتھ ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔اس کا مزید کہنا تھا کہ جب بھی اس کی بیٹیاں ملیں تو ایف آئی آر نامزد ملزمان سے برآمد ہوگی۔بااثر مافیا نے اس میں پیشہ ور عورتوں کی بڑی تعداد گینگ کی صورت میں کام کر رہے ہیں۔
مقدمے کے تفتیشی افسر انسپکٹر حیدر نے آن لائن کے استفسار پر بتایا کہ یہ بات درست ہے کہ سینئر پولیس افسران کے احکامات کی روشنی میں مقدمہ کو داخل دفتر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔دوسرے بار اخباری اشتہار کے بعد قانونی طور پر داخل دفتر کردیا جائے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ کئی بیرونی ممالک اور صوبائی حکومتوں کو خط لکھے گئے لیکن پولیس مکمل طور پر ناکام رہی۔واضح رہے کہ لیگی دور حکومت میں بڑی تعداد میں انسانی اسمگلرز اسلام آباد میں سرگرم ہوگئے،جن کو وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے اور اسلام آباد پولیس میں موجود چند کالی بھیڑوں کی پشت پناہی حاصل ہے لیکن لیگی حکومت میں وزیراعظم نوازشریف اور سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کی ذاتی لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے داخلی صورتحال بدتر سے بدتر ہوتی